الحمد للہ.
تجارتى سامان ( زمين وغيرہ ) پر زكاۃ واجب ہے، جب سے اس نے فروخت كے ليے تيار كى ہو اس وقت سے اس پر سال مكمل ہو جائے تو اس كى زكاۃ دينا ہو گى، اور اس كى زكاۃ كا حساب اس طرح ہو گا كہ وہ سال مكمل ہونے پر اس كى قيمت لگائے اور اس قيمت ميں سے اڑھائى فيصد زكاۃ نكال دے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
خريدوفروخت كے ليے تيار كردہ زمين پر زكاۃ واجب ہے؛ كيونكہ يہ تجارتى سامان ميں سے ہے، اور كتاب وسنت ميں زكاۃ كے وجوب كے عموم ميں شامل ہے.
ان دلائل ميں فرمان بارى تعالى ہے:
ان كےمالوں ميں سے صدقہ لے لو، اس سے آپ انہيں پاك كرينگے اور انہيں پاكيزہ بنائيں گے.
سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى زكاۃ دينے كا حكم ديتے جو ہم نے فروخت كے ليے تيار كى ہوتى "
اسے ابو داود رحمہ اللہ نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور جمہور اہل علم كا قول يہى ہے، جو كہ حق ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 331 ).
اس ميں كوئى فرق نہيں كہ زكاۃ ادا كرنے والى كى ملكيت ميں سارى زمين ہو يا پھر وہ اس ميں حصہ دار ہو، جيسا كہ حصص ميں ہوتا ہے.
اور دوسرے فتوى ميں كميٹى كے علماء كرام كہتے ہيں:
حصہ دارى كے ذريعہ ملكيت ميں آنےوالى زمين كى زكاۃ كے متعلق دريافت كيا گيا كہ آيا اس كا حكم تجارتى سامان جيسا ہے، يا كہ ثابت اور مستقل جائداد كا ؟
كميٹى كا جواب تھا:
جب كوئى شخص كسى جائداد كا مالك تجارت كى نيت سے مالك بنے چاہے وہ جائداد مشتركہ ہو يا اس كى مكمل ملكيت تو اس كا حكم تجارتى سامان كا ہے، جب وہ نصاب تك پہنچے اور ملكيت ميں آنے كے بعد سال مكمل ہو جائے تو اس كى قيمت ميں زكاۃ واجب ہو گى.
اور قيمت معلوم كرنے كا طريقہ يہ ہے كہ سال مكمل ہونے كے بعد تجربہ كار لوگوں سے اس كى قيمت لگوائى جائے.
واللہ تعالى اعلم.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 326 ).
واللہ اعلم .