منگل 22 ذو القعدہ 1446 - 20 مئی 2025
اردو

خریدے ہوئے مال کو اپنے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرنا

333002

تاریخ اشاعت : 19-05-2025

مشاہدات : 69

سوال

میں نے گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے اپنے چچا زاد  سے کہا کہ میرے لیے کوئی گاڑی خریدیں، تو انہیں ایک اچھی گاڑی مل گئی، پھر  انہیں ایک گاہک مل گیا جو اسی گاڑی  کو خریدنے کا خواہاں تھا، میرے کزن نے اسے 150 ڈالر کے  نفع کے ساتھ فروخت کر دیا، اور اس میں سے 50 ڈالر رکھ کر بقیہ 100 ڈالر مجھے دے دئیے اور کہا:  یہ آپ کی ہے۔ تو میں نے کہا کہ: اس پر میرا حق نہیں بنتا؛ کیونکہ میں نے تو گاڑی کی قیمت ہی ادا نہیں کی اور نہ ہی میں نے گاڑی خریدی ہے۔ تو آپ مجھے بتلائیں کہ کیا میں  اس کے صرف یہ کہنے پر نفع لے سکتا ہوں کہ : یہ آپ کے ہیں، تو کیا اس کے یہ کہنے سے وہ پیسے میری ملکیت میں آ گئے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر گاڑی آپ نے نہیں خریدی تو وہ آپ کے کزن کی ملکیت میں ہے، اور اس پر جتنا بھی نفع آیا ہے وہ اسی کا ہے، لیکن اگر گاڑی آپ نے خریدی  اور آپ کے کزن نے  آپ کی اجازت کے بغیر ہی فروخت کر دی تو یہ بغیر اجازت کے تصرف ہے، آپ اگر اس پر راضی ہوں تو صحیح ہو سکتا ہے،  اس صورت میں سارا نفع آپ کا ہو گا۔

آپ کے کزن کا کہنا کہ: "یہ آپ کی ہوئی۔" محض یہ کہنے سے  خرید و فروخت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے دیگر شرائط کا پایا جانا بھی ضروری ہے، مثلاً:

خرید و فروخت کے لیے معاشرے میں رائج الفاظ  یا طور طریقے سے ایجاب و قبول۔

قیمت معلوم ہو، اس لیے اگر چیز کی قیمت معلوم نہیں ہے تو بیع درست نہیں ہو گی۔

چیز کو دیکھ کر یا اس چیز کی معلومات  جان کر  چیز کی جانچ پڑتال کر لی  جائے۔

چنانچہ جب تک یہ تین شرائط نہیں ہوں گی اس وقت تک خرید و فروخت صحیح نہیں ہو گی۔

پھر اگر کوئی شخص    کوئی چیز خریدے  تو پہلے مالک سے اس چیز کو اٹھا کر اپنے قبضے میں لے لے پھر اسے فروخت کر سکتا ہے، اس سے پہلے فروخت نہیں کر سکتا؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (جب تو کوئی چیز خریدے تو اسے اپنے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت مت کر۔) اس حدیث کو احمد: (15316) اور نسائی: (4613) نے روایت کیا ہے اور البانی  نے اسے صحیح الجامع: (342) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح امام دارقطنی اور ابو داود: (3499) میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سامان کو وہیں پر فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے جہاں سے خریدا  ہے، تا آں کہ تاجر حضرات اسے اپنے ٹھکانوں میں منتقل نہ کر لیں۔" اس حدیث کو البانی ؒ نے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔

اور صحیح موقف یہ ہے کہ  نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم تمام قسم کے سامانِ تجارت کے بارے میں ہے، یہی موقف امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ علمائے کرام  کے چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرنے بارے میں موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
" ہم نے یہ بات واضح کی ہے کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرنا باطل ہے، چاہے وہ چیز کھانے پینے کی ہو یا کچھ اور۔ یہی موقف ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ثابت شدہ ہے، اور محمد بن حسن رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔"

علامہ نووی رحمہ اللہ نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ:
"عام طور پر جن چیزوں کو منتقل کر لیا جاتا ہے مثلاً: لکڑی، اناج، اور مچھلیاں وغیرہ  تو ان پر قبضہ انہیں  ایسی جگہ منتقل کرنے  کی صورت میں ہو گا جو جگہ فروخت کنندہ  کے لیے مختص نہ ہو۔ چنانچہ اگر وہ چیز مشتری کی ملکیت والی جگہ میں آ جائے، یا کسی ویرانے میں منتقل کر لی جائے، یا سڑک پر رکھ  لی جائے یا مسجد  وغیرہ میں تو اس پر قبضہ ہو گیا۔" ختم شد
"المجموع" (9/ 270، 276)

اور اگر آپ کے کزن نے آپ کو کچھ پیسے اس لیے دیے کہ آپ  بھی اچھا محسوس کریں؛ کیونکہ اس نے ایسی چیز فروخت کر دی ہے جس کا اس نے آپ سے وعدہ کیا تھا، تو پھر اسے قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب