الحمد للہ.
یہ بات تو ثابت ہے کہ مسلمان بچہ فوت ہو جانے کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس ایک باغ میں ہوتا ہے۔
اس کی دلیل سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو باتیں صحابہ سے اکثر کیا کرتے تھے ان میں یہ بھی تھی کہ : (تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ) بیان کیا کہ: پھر جو چاہتا اپنا خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بیان کرتا ۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کے وقت بتلایا کہ : (رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور انہوں نے مجھے اٹھا یا ۔۔۔ اور دونوں نے مجھ سے کہا : چلو ، چلو تو ہم آگے چل دئیے اور پھر ایک ایسے باغ میں پہنچے جو ہرا بھرا تھا اور اس میں موسم بہار کے سب رنگ تھے۔ اس باغ کے درمیان میں ایک بہت لمبا قد آور شخص تھا ، اتنا لمبا تھا کہ میرے لیے اس کا سر دیکھنا دشوار تھا کہ اس کا سر آسمان سے لگا ہوا ہے، اور اس شخص کے چاروں طرف سے بہت سے بچے تھے کہ میں نے کبھی اتنے بچے نہیں دیکھے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ : (میں نے پوچھا یہ کون ہے اور یہ بچے کون ہیں ؟) تو دونوں نے مجھے کہا: چلو چلو۔۔۔! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ : (میں نے ان سے کہا کہ آج ساری رات میں نے عجیب و غریب چیزیں دیکھی ہیں ۔ یہ چیزیں کیا تھیں جو میں نے دیکھی ہیں ؟) فرمایا کہ : انہوں نے مجھ سے کہا ہم آپ کو بتائیں گے ۔۔۔اور وہ لمبا شخص جو باغ میں نظر آیا وہ سیدنا ابراہیم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور جو بچے ان کے چاروں طرف ہیں تو وہ بچے ہیں جو [بالغ ہونے سے قبل ہی] فطرت پر فوت ہو گئے ۔ راوی کہتے ہیں کہ: اس پر بعض مسلمانوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا مشرکین کے بچے بھی ان میں داخل ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں مشرکین کے بچے بھی ان میں داخل ہیں ”
اس حدیث کو بخاری: (7047) نے روایت کیا ہے۔
دوم:
جبکہ میت کا زندہ کے سلام کو سننا اور قبر کی زیارت کرنے والوں کو محسوس کرنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، ہم نے پہلے اس چیز کو بیان کیا ہے کہ اہل علم کی ایک جماعت نے اس موقف کو صحیح قرار دینے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میت قبر پر آنے والے زائرین کے بارے میں جانتی ہے، اسے آپ سوال نمبر: (111939) کے جواب میں پڑھ سکتے ہیں۔
بہ ہر حال اس طرح کے مسائل میں زیادہ گہرائی میں جانا صحیح نہیں ہے کہ میت کس طرح جانتی ہے، اور اسے کس طرح احساس ہو جاتا ہے وغیرہ؛ کیونکہ یہ عالم برزخ سے متعلقہ امور ہیں جو کہ عالَم غیب ہے، اور اس جہان کے بارے میں معلومات کتاب و سنت کی صورت میں صحیح اور ثابت شدہ ذرائع سے ہی مل سکتی ہیں۔
لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ: مسلمانوں کے بچوں کی روحیں اگرچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہوتی ہیں لیکن پھر بھی ان کا قبر میں موجود بدن سے رابطہ ہوتا ہے، اسی طرح شہداء اور دیگر فوت شدگان کی روحوں کا رابطہ ہوتا ہے؛ کیونکہ روح کا بدن سے کچھ نہ کچھ رابطہ باقی رہتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اہل ایمان کی روحیں اگرچہ جنت میں ہوتی ہیں، لیکن جب اللہ تعالی چاہے تو اس کا قبر میں موجود جسم سے رابطہ ہوتا ہے ،اس رابطے کے قائم ہونے میں وقت نہیں لگتا بالکل ایسے ہی جیسے فرشتے آنکھ جھپکتے ہی پہنچ جاتے ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ روح آزاد چھوڑی ہوئی ہوتی ہے، وہ جہاں چاہے چلی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روح کے بارے میں آیا ہے کہ وہ قبروں میں بھی ہوتی ہے اور جنت میں بھی ہوتی ہے، دونوں باتیں حق ہیں۔
صحیح روایات میں ثابت ہے کہ روح موت کے بعد جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے اور پھر سوالات کیے جاتے ہیں، پھر واپس لوٹائی جاتی ہے؛ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو روح جسم کے ساتھ یقینی طور پر متصل ہوتی ہے۔ واللہ اعلم” ختم شد
“مختصر فتاوى مصریہ” (190)
واللہ اعلم