الحمد للہ.
اول:
وائرس سے بچاؤ کا لباس پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے اس سے چہرہ اور مکمل بدن ڈھک جائے، جب تک نمازی سجدے میں اپنی ناک اور پیشانی زمین پر ٹکا سکتا ہے اس میں نماز پڑھنے پر کوئی حرج نہیں ہے۔
جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے حکم دیا گیا کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں: پیشانی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ناک کی جانب اشارہ فرمایا، دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں، اور دونوں قدموں کے کناروں پر) اس حدیث کو امام بخاری: (812) اور مسلم : (409)نے روایت کیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نمازی پر ان اعضا میں سے کسی بھی عضو کو براہ راست زمین پر لگانا واجب نہیں ہے۔ قاضیؒ کہتے ہیں کہ: جب نمازی اپنے عمامے کے پیچ یا اپنی آستین یا قمیض کے دامن پر سجدہ کر لے تو اس کی نماز صحیح ہے، سب سے ایک ہی موقف منقول ہے۔ یہی موقف امام مالک اور ابو حنیفہ کا ہے۔ سردی یا گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنے کی رخصت دینے والوں میں: عطاء، طاوس، نخعی، شعبی، اوزاعی، مالک، اسحاق اور اصحاب رائے شامل ہیں۔
اسی طرح عمامے کے پیچ پر سجدہ کرنے کی رخصت دینے والوں میں حسن، مکحول اور عبد الرحمن بن یزید شامل ہیں۔ اور قاضی شریح نے اپنے کوٹ پر سجدہ کیا۔" ختم شد
"المغنی" (1/305)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے بہت بڑی بڑی عینکیں پہنی ہوئی ہیں، اور ان کی وجہ سے ساتوں اعضا پر سجدہ ممکن نہیں ہے، عینک کی وجہ سے ناک زمین پر نہیں لگتی، تو اس کا کیا حکم ہے؟
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"اگر عینک کی وجہ سے ناک کا کنارہ بھی زمین تک نہیں پہنچتا تو پھر سجدہ صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس صورت میں سجدہ ناک پر نہیں بلکہ عینک پر ہو گا، اور عینک ناک کے کنارے پر نہیں بلکہ آنکھوں کے سامنے ہے، اس طرح سجدہ صحیح نہیں ہو گا، تو جس شخص نے ایسی عینک پہنی ہوئی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اسے اتار دے۔" ختم شد
"مجموع فتاوی شیخ ابن عثیمین" (13/ 186)
تاہم نماز میں چہرہ ڈھانپ کر رکھنا مکروہ ہے، البتہ ضرورت ہو تو چہرہ ڈھانپنا مکروہ نہیں ہے۔
چنانچہ "الشرح الممتع" (2/ 193) میں کہتے ہیں:
"نماز کی حالت میں پردہ منہ یا ناک پر رکھنا مکروہ ہے، یعنی سر کا رومال یا پگڑی کا پلو اپنے منہ یا ناک پر رکھنا مکروہ ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے کہ مرد اپنا منہ نماز میں مت ڈھانپے۔ [اس حدیث کو ابو داود: (643) اور ابن ماجہ: (966)نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے] اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ منہ پر کپڑا ہونے سے آواز واضح نہیں ہو گی اور قراءت کے دوران الفاظ کی ادائیگی صحیح سمجھ میں نہیں آ سکے گی۔
اس ممانعت سے جماہی کی صورت میں کپڑا ڈھانپ کر جماہی روکنا مستثنی ہو گا، جماہی روکنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن بغیر وجہ سے منہ یا ناک ڈھانپنا مکروہ ہے۔
تاہم آس پاس بد بو ہو اور دوران نماز تکلیف ہو رہی ہو تو ضرورت پڑنے پر منہ ڈھانپنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بھی جائز ہے؛ کیونکہ اب ضرورت پڑنے پر منہ ڈھانپا گیا ہے، اسی طرح اگر کسی کو زکام ہو یا نمازی کو منہ نہ ڈھانپنے کی وجہ سے الرجی کا خدشہ ہو تو اس صورت میں بھی منہ ڈھانپا جا سکتا ہے۔" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (69855) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
انسان حفاظتی لباس پہنے ہوئے ہو اور اعضائے وضو دھونا اور سر کا مسح کرنا ممکن ہو تو وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے اس کے لیے اسے پانی ہاتھ سے وردی میں داخل کرنا پڑے، اسی طرح پہنی ہوئی جرابوں اور موزوں پر مقیم ہونے کی صورت میں ایک دن اور رات مسح کرنا جائز ہے، جبکہ مسافر ہونے کی صورت میں تین دن اور راتیں مسح کرنا جائز ہے۔
جیسے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سفر میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فرمایا: (مغیرہ! پانی کا ڈول پکڑو) تو میں نے پکڑ لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے چل دئیے اور میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قضائے حاجت فرمائی ، آپ نے اس وقت شامی جبہ پہنا ہوا تھا، آپ نے اپنے ہاتھوں کو اس کی کفوں سے نکالنا چاہا تو وہ تنگ پڑ گئیں ، پھر آپ نے نیچے سے اپنا ہاتھ نکال لیا، میں نے پھر وضو کے لیے پانی ڈالا، آپ نے ایسے ہی وضو فرمایا جیسے آپ نماز کے لیے وضو کرتے تھے ، پھر آپ نے اپنے موزوں پر مسح کر کے نماز ادا کی۔ اس حدیث کو امام بخاری: (363) اور مسلم : (274)نے روایت کیا ہے۔
جبکہ صحیح مسلم میں یہ بھی اضافہ ہے کہ: " آپ نے اس وقت شامی جبہ پہنا ہوا تھا جس کی کفیں بہت تنگ تھیں۔"
چنانچہ جو شخص حفاظتی لباس پہن کر بھی وضو کر سکتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص حفاظتی لباس پہنے ہوئے وضو نہیں کر سکتا تو اس کے لیے اس لباس کو اتارنا ضروری ہے تا کہ وضو مکمل ہو سکے۔
تاہم اگر طبی عملے اور ڈاکٹروں کو حفاظتی لباس پہننے کی وجہ سے تنگی ہوتی ہے اور انہیں یہ لباس ہر وقت پہن کر بھی رکھنا پڑتا ہے تو ان کے لیے ظہر مع عصر اور مغرب مع عشا جمع تقدیم یا تاخیر کر کے ادا کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کے اسباب میں مشقت اور مشکل ہونا بھی شامل ہے کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مستحاضہ عورت کے لیے دو نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت اسی لیے دی تھی کہ اس کے لیے ہر نماز کے لیے الگ وضو کرنا مشقت کا باعث تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"نماز قصر کرنے کا سبب صرف سفر ہی ہے، لہذا سفر کے بغیر نماز قصر نہیں کی جا سکتی، البتہ نمازیں جمع کرنے کا سبب ضرورت اور عذر ہے؛ لہذا سفر چاہے لمبا ہو یا مختصر ہر دو صورت میں جب بھی نماز جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح بارش اور بیماری وغیرہ سمیت دیگر وجوہات کی صورت میں بھی نمازیں جمع کی جا سکتی ہے؛ کیونکہ نمازیں جمع کرنے کی رخصت کا مقصد یہ ہے کہ امت کو مشقت نہ ہو۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (22/ 293)
واللہ اعلم