اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اپنی عیسائي بیوی پر شک ہو توکیاوہ حمل سے برات کا اظہار کرسکتا ہے

33615

تاریخ اشاعت : 15-02-2004

مشاہدات : 9729

سوال

اس مسلمان شخص کے بارہ میں کیا حکم ہے جواپنے بچے سے برات کا اظہار کررہا ہے حالانکہ وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا عیسائی بیوی کوطلاق بھی دے چکا ہے ؟
اس والد کی سزا کیا ہوگي جب اس کا وہ بچہ عیسائي معاشرہ میں پرورش پائے اوروالداپنابیٹا ہونے سے انکار کرے ؟
الٹرا ساؤنڈ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بچہ اپنے والد سے مشابہ ہے ، اورخاوند اپنی بیوی کوجھوٹا کہتا ہے ، اس شخص نے بالاخر گفتگو کی اور اس موضوع میں میری نصیحت کی وجہ سے ہمارے بیس سالہ پرانے تعلقات بھی منقطع ہوگئے ، تو کیا کوئي ایسی نصیحت ہے جواس شخص کوکی جاسکے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اصل اورصحیح تویہی ہے کہ بچہ اپنے والد کی طرف ہی منسوب ہوگا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( بچہ بستر والے کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) ۔

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ : بچہ بیوی کے خاوند کی طرف منسوب کیا جائے گا اورزانی کوذلت اوررسوائي حاصل ہوگي ۔ دیکھیں فتح الباری ( 12 / 36 ) ۔

اورنسب بچہ کا حق ہے اسے اس سے چھینا نہیں جاسکتا ، اورنہ ہی اس کے بارہ میں اس پر زیادتی کی جاسکتی ہے ۔

لیکن اگر خاوند کو یقین ہو اوریا پھر ظن غالب یہ ہو کہ بچہ اس کا نہیں تو وہ اس کی نفی کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی بیوی سے لعان کرنا ہوگا ( لعان یہ ہے کہ خاوند اوربیوی دونوں باری باری قسمیں اٹھائيں گے )

جمہورعلماء کے نزدیک صرف برات سے ہی بچے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ چاہے بیوی زنا کا اقرار بھی کرلے بلکہ اس کے لیے خاوند اوربیوی کا آپس میں لعان کرنا ضروری ہے ۔

اورلعان کا طریقہ یہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورجولوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائيں اوران کے پاس اپنے علاوہ کوئي اورگواہ بھی نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چارمرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہے ۔

اورپانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو ۔

اوراس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ تعالی کی قسم کھا کر کہے کہ یقینا اس کا خاوند جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے ۔

اورپانچویں دفعہ یہ کہے کہ اس پر اللہ تعالی کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہے } النور ( 6 - 9 ) ۔

توخاوند چار مرتبہ اس طرح کہے : میں اللہ تعالی کوگواہ بنا کر اوراس کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں جو اس پر زنا کا الزام لگایا ہے اس میں سچا ہوں ، یا پھر یہ کہے میں اللہ تعالی کی قسم اٹھاتا ہوں کہ تو نے زنا کیا ہے اوریہ بچہ میرا نہیں ، اورپانچویں باریہ الفاظ زيادہ کہے اگرمیں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ تعالی کی لعنت ہو ۔

اوراگرعورت لعان کرے تووہ اس طرح کہے :

میں اللہ تعالی کی قسم اٹھا کراوراسے گواہ بنا کہتی ہوں کہ یہ جھوٹا ہے ، یا یہ کہے : میں اللہ تعالی کی قسم اٹھا اوراللہ تعالی کوگواہ بنا کرکہتی ہوں کہ اس نے جھوٹ بولا ہے ، اوریہ بچہ اس کاہی ہے ، اورپانچویں بار وہ یہ اضافہ کرے اوراگر وہ سچا ہے تومجھ پر اللہ تعالی کا غضب ہو ۔

اورلعان مسجد میں لوگوں اورقاضی یا اس کے نائب کی موجودگي کے وقت ہونا چاہیے یا پھر مسلمانوں میں سے کسی بھی فیصلہ کرنے والے کی موجودگی میں ۔

ابن عبدالبررحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

( علماء کرام کا اس میں اختلاف نہیں کہ لعان اس مسجد میں ہونا چاہیے جہاں نماز جمعہ ہوتی ہو ) فتح البر ( 10 / 525 ) ۔

اورجب خاوند اوربیوی لعان کرچکیں تواس لعان کی بنا پر مندرجہ ذيل امور مرتب ہوں گے :

1 - خاوند سے حد قذف ساقط ہو جائے گی ۔

2 - بیوی سے حد زنا ساقط ہوجائے گی ۔

3 - خاوند اوربیوی کے مابین علیحدگي ہو جائے گی ، قاضی کے حکم پر موقوف نہیں رکھا جائے گا بکلہ اکثر اہل علم کے ہاں یہ لعان ہوتے ہی علیحدگي واقع ہوجاتی ہے ۔

4 - خاوند اوربیوی کے مابین ابدی حرمت پیدا ہوجائے گي ۔

5 - بچہ کی نفی ہوگي یعنی بچہ خاوند کی طرف منسوب نہیں ہوگا بلکہ وہ اس کی ماں کی طرف ہی منسوب ہوگا ، اوران کے درمیان نفقہ اوروراثت بھی نہیں ہو گي اس لیے کہ وہ آپس میں اجنبی ہیں ۔

اوراس میں کوئي شک نہيں کہ بچے کوعیسائي معاشرے اورماحول میں چھوڑنا صحیح نہیں یہ اس پر اثر انداز ہوگا جو کہ ایک بہت ہی خطرناک اورعظیم معاملہ ہے ، تواس لیے خاوند پر ضروری ہے کہ اس وقت تک لعان اوربچے کی نفی نہ کرے جب تک کہ وہ اس کی تحقیق نہ کرلے کہ واقعی اس کی بیوی نے زنا کا ارتکاب کیا ہے یا پھر بیوی کے زنا پر ظن غالب ہو ۔

وگرنہ دوسری صورت میں وہ خود گنہگار ہوگا اوربچے پر ظلم اوراسے کفراوردینی انحراف کے لیے پیش کرنے کی وجہ سے بہت ہی بڑا گناہ ہوگا ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب