جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

جب فطرانہ ادا کرنے کے لیے اتنا اناج نہیں ہے کہ پورے اہل خانہ کی طرف سے ادا ہو تو کیا کرے؟

سوال

فطرانے کے بارے میں سوال ہے کہ اگر کسی خاندان کے پاس عید کی رات اور دن  کی ضرورت سے بڑھ کر اناج  تو ہے لیکن اتنا نہیں ہے کہ پورے خاندان کی طرف سے فطرانہ ادا ہو ، تو کیا  وہ بعض کی طرف سے فطرانہ ادا کریں گے یا پھر سب کی طرف سے ساقط ہو جائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

گھر میں عید کی رات اور دن کی  بنیادی ضروریات سے زائد اناج موجود ہونے پر ہر مسلمان کے ذمے فطرانہ ادا کرنا واجب ہے جس کی مقدار ایک صاع ہے۔ یہاں گھر کے سربراہ اور زیر کفالت لوگوں کی بنیادی ضرورت کو مد نظر رکھا جائے گا؛ کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ:  (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فطرانے کی ادائیگی کے لیے کھجوروں ، یا جو کا ایک صاع ہر غلام، آزاد، مرد، عورت ، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر لازم قرار دیا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فطرانے کے بارے میں حکم دیا کہ لوگوں کے نماز  کے لیے نکلنے سے  پہلے  ادا کیا جائے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1503) اور مسلم : (984)نے  روایت کیا ہے۔

اور یہاں گھر کے سربراہ  اور زیر کفالت کی ضروریات کو مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کے کھانے پینے کا بندوبست  فطرانے کی ادائیگی سے زیادہ ضروری ہے، اس لیے گھر کی ضروریات کو  مقدم رکھنا ضروری ہے، ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنی ذات سے آغاز کرو اور اپنے آپ پر خرچ کرو، اگر اس سے بھی کوئی چیز اضافی ہو جائے تو اپنے اہل خانہ کے لیے اور اہل خانہ کی ضروریات سے بھی کوئی چیز بڑھ جائے تو  اپنی قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرو، اور اگر رشتہ داروں پر خرچ کر کے بھی کچھ بچ جائے تو پھر یہاں اور یہاں خرچ کر دو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے یہ کہتے ہوئے اپنے سامنے ، دائیں اور بائیں اشارہ فرمایا۔) مسلم: (997)

دوم:

انسان پر اپنی طرف سے اور بیوی، بچوں سمیت دیگر زیر کفالت  رشتہ داروں کی طرف سے فطرانہ ادا کرنا اس وقت ضروری ہوتا ہے جب ان کا نفقہ انسان پر لازم ہو۔

تاہم اگر کسی کے پاس اتنی مقدار میں اضافی اناج نہیں ہے جس کے ذریعے تمام کی طرف سے فطرانہ ادا کر سکے تو پھر کچھ لوگوں کی طرف سے ادا کر دے اور اس میں سب سے قریب والے سے آغاز کرے۔

لہذا پہلے اپنا فطرہ ادا کرے، پھر اپنی بیوی کی جانب سے، پھر والدہ، پھر والد، اور پھر اولاد کی جانب سے، پھر اپنے دیگر رشتہ داروں کی جانب سے جیسے کہ بھائی بہن وغیرہ۔

جیسے کہ اس کے بارے میں "زاد المستقنع"، ص77 میں ہے کہ : "اگر کچھ زیر کفالت افراد کی جانب سے فطرانہ ادا کرنے سے قاصر ہو تو پہلے اپنی طرف سے پھر بیوی، غلام، والدہ، والد، اولاد، اور اس کے بعد وراثت میں قریب ترین شخص کی طرف سے فطرانہ ادا کرے۔" ختم شد

اسی طرح "كشاف القناع" (2/ 249) میں ہے کہ:
"فطرانے کی ترتیب نفقہ والی ترتیب ہی ہے؛ کیونکہ فطرانہ بھی نفقہ واجب ہونے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے، چنانچہ اگر اتنی مقدار میں اناج نہ پائے کہ تمام افراد کی جانب سے فطرانہ ادا کر سکے  تو لازمی طور پر اپنے آپ سے فطرانہ ادا کرنے کا آغاز کرے؛ کیونکہ پہلے گزر چکا ہے کہ فطرانہ واجب ہونے کی ترتیب بھی وہی ہے جو نفقہ واجب ہونے کی ترتیب ہے، جبکہ نفقہ واجب ہونے کی ترتیب میں اپنے آپ پر خرچ کرنا سب سے پہلے آتا ہے، تو اسی لیے فطرانہ بھی سب سے پہلے اپنے آپ کا ہی ادا کرے گا، اس کے بعد اپنی بیوی کی جانب سے چاہے وہ لونڈی ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ بیوی کا نفقہ مطلق طور پر واجب ہوتا ہے، جبکہ رشتہ داروں کا خرچہ مطلق طور پر واجب نہیں ہوتا، پھر بیوی کو دیگر زیر کفالت افراد پر مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ بیوی کے نفقے کی تاکید زیادہ آئی ہے، نیز اس لیے بھی بیوی کا نفقہ ضروری ہے کہ اس میں استمتاع کا عوض بھی پایا جاتا ہے۔ پھر اپنے غلام کا فطرانہ ادا کرے گا؛ کیونکہ تنگ دست ہونے کے باوجود بھی غلام کا نفقہ ضروری ہوتا ہے۔ بلکہ ابن عقیلؒ تو یہ بھی کہتے ہیں:  غلام کے نفقے کا بیوی کے نفقے پر مقدم ہونے کا احتمال بھی موجود ہے کہ کہیں ایسے نہ ہو کہ کلی طور پر غلام محروم رہ جائے۔ اس کے بعد والدہ کی طرف سے فطرہ ادا کرے؛ کیونکہ والدہ کو حسن سلوک میں والد پر ترجیح دی گئی ہے جیسے کہ صحابی کے حسن سلوک کے متعلق حدیث میں وضاحت ہے: (میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟۔۔۔) اس کے بعد اپنے والد کا فطرانہ ادا کرے گا؛ کیونکہ حدیث میں ہے کہ : { تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے۔} پھر اپنی اولاد کی جانب سے فطرہ ادا کرے؛ کیونکہ مجموعی طور پر اولاد کا نفقہ بھی انسان پر لازم ہوتا ہے، اس کے بعد وراثت کی ترتیب کے مطابق قریب ترین رشتہ دار کی جانب سے فطرانہ ادا کرے گا؛ کیونکہ قریبی رشتے دار کا دور والے رشتہ دار کی بہ نسبت زیادہ حق ہے، اس لیے یہاں فطرانے کے مسئلے میں بھی وراثت کی ترتیب کو ہی ملحوظ رکھا گیا۔ تاہم جس وقت ایک درجے کے دو یا اس سے زائد رشتے دار اکٹھے ہو جائیں مثلاً: دو بیٹے،  یا کئی بیٹے، یا بھائی وغیرہ لیکن صاع ایک ہی باقی ہو تو ان میں قرعہ اندازی کر لے، کیونکہ اب ان میں ترجیح دینے کا کوئی سبب نہیں ہے اس لیے قرعہ اندازی ہی ہو سکتی ہے۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب