جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

حج کی قربانی مکہ کے علاوہ کہيں اورذبح کرنے کا حکم

سوال

بعض حجاج کرام کچھ خیراتی اداروں کوپیسے جمع کراتے ہیں جوقربانی ذبح کرکے زمین کے مشرق ومغرب میں گوشت تقسیم کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں ، تواس عمل کا حکم کیا ہے اللہ تعالی آپ کوجزائے خیرعطا فرمائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ سوال فضیلۃ الشیخ محمد ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا گياتوان کا جواب تھا :

"یہ عمل غلط اوراللہ تعالی کی شریعت کے مخالف اوراللہ عزوجل کے بندوں کودھوکہ دینا ہے ، وہ اس لیے کہ حج کی قربانی ذبح کرنے کی جگہ تومکہ مکرمہ ہے جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حج کی قربانی مکہ میں ذبح کی،نہ تواسے مدینہ میں اورنہ ہی کسی اوراسلامی ملک میں ذبح کیا ، اورعلماء کرام نے اسے بیان کرتے ہوئے وضاحت سے کہا ہے کہ :

"حج تمتع اورحج قران اورواجب کی قربانی ( یعنی واجب عمل ترک کرنے پرلازم ہونے والا دم ) مکہ میں ذبح کرنا واجب ہے "

اوراللہ سبحانہ وتعالی نےاسے شکارکرنے کی سزا میں واضح بیان فرمایا ہے :

( يحكم به ذوا عدل منكم هديا بالغ الكعبة (

ترجمہ: اس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کرینگے وہ فدیہ کعبہ تک پہنچایا جائے ۔

لہذا شریعت میں جوچيز کسی خاص جگہ کے لیے متعین کردی گئى ہو اسے کسی اورجگہ منتقل کرنا جائز نہيں ہے ، بلکہ اسکو وہیں ادا کرنا واجب ہے ، تواس طرح حج کی قربانیاں مکہ میں ہی ہونگی اوروہاں کے فقراء میں ہی تقسیم کرنا ہونگی ، اوراگربالفرض مکہ میں کوئی قربانی کا گوشت لینے والا نہیں ہے، یہ مفروضہ ہوسکتا ہے کہ ناممکن ہو، کیونکہ اس میں کوئى حرج نہيں کہ قربانی مکہ میں ذبح کی جائے اوراس کا گوشت دوسرے مسلمان ممالک میں محتاجوں کوپہنچادیا جائے ، اس میں بھی قریب ترین کاخیال رکھنا ہوگا سب سے پہلے قریبی ملک اورزيادہ ضرورت مندکوترجیح دی جائے گی اوربعد میں دوسروں کو" .

ماخذ: کتاب "دلیل الاخطاء التی یقع فیھا الحاج والمعتمر "سے لیا گيا