منگل 23 جمادی ثانیہ 1446 - 24 دسمبر 2024
اردو

پیاس، یا موت یا کسی بھی نقصان کے خدشے سے کوئی روزہ افطار کر لے تو کیا وہ کھانا بھی کھا سکتا ہے؟

سوال

جو شخص پیاس، یا موت یا کسی نقصان کے خدشے سے روزہ افطار کر لے تو کیا وہ دن کے بقیہ حصے میں کھانا بھی کھا سکتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص شدید پیاس کی وجہ سے روزہ توڑ دے، پیاس اتنی شدید ہو کہ انسان کو مرنے کا خدشہ ہو یا شدید نوعیت کا نقصان ہو سکتا ہو، یا بہت زیادہ مشقت کے باعث روزہ مکمل کرنا ممکن نہ ہو تو اس پر روزہ کھولنے کے بعد دن کا بقیہ حصہ کھانے پینے سے رکے رہنا لازم ہے، روزہ توڑنے کے بعد کھانے پینے میں لگ جانا جائز نہیں ہے، چنانچہ یہ شخص اتنی مقدار میں ہی کھائے پیے گا جس سے نقصان کا خدشہ ٹل جائے ، اور پھر سورج غروب ہونے تک کھانے پینے سے ہاتھ روکے رکھے اور اس دن کی قضا بھی دے۔

جیسے کہ "كشاف القناع" (2/ 310) میں ہے کہ:
"ابو بکر آجری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کسی شخص کا پیشہ انتہائی مشقت والا ہو اور روزہ رکھ کر اسے موت کا خوف لاحق ہو تو روزہ کھول دے اور قضائی دے؛ بشرطیکہ پیشہ چھوڑنے سے اسے نقصان ہو سکتا ہو۔ لیکن اگر پیشہ روزے کی حالت میں نقصان کا باعث نہ ہو پھر بھی روزہ چھوڑ دے تو اسے گناہ ہو گا، تاہم وہ پیشہ چھوڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر پیشہ چھوڑنے سے بھی ضرر کا خدشہ باقی رہتا ہے تو ایسی صورت میں روزہ خوری پر اسے گناہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ اب اس نے روزہ عذر کی بنا پر چھوڑا ہے" ختم شد

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (10/ 233) میں ہے:
"کسی بھی مکلف شخص کے لیے رمضان میں دن کے وقت مزدوری کو دلیل بنا کر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر اسے بہت زیادہ مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ روزہ افطار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو اتنی مقدار میں کھا پی لے جس سے اس کی مشقت ختم ہو جائے، اور سورج غروب ہونے تک کھانے پینے سے رکا رہے، پھر لوگوں کے ساتھ کھانا پینا شروع کرے، اور اس دن کے روزے کی قضا دے۔" ختم شد

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کچھ لوگ اپنی کسی مجبوری کی بنا پر روزہ کھول لیتے ہیں؛ مثلاً: شدید نوعیت کی پیاس لگ جاتی ہے تو ایسے لوگ روزہ افطار کر کے بقیہ دن مسلسل کھاتے پیتے رہتے ہیں، تو اس صورت میں شرعی طور پر کیا حکم ہے؟

جواب: اس طرح سے کھانا پینا جائز نہیں ہے، اسے چاہیے کہ اپنی ضرورت اور حاجت کے مطابق کھائے پیے اور پھر کھانے پینے سے رک جائے، چنانچہ پیاس کی وجہ سے ہو تو ضرورت کے مطابق پانی پیے، اور اگر بھوک کی وجہ سے ہو تو ضرورت کے مطابق ہی کھائے پیے، اور پھر سورج غروب ہونے تک کھانے پینے سے رک جائے ، مسلسل کھاتا پیتا نہ رہے، اسے ضرورت کے مطابق ہی کھانے پینے کی اجازت تھی، وہ ضرورت پوری ہونے پر کھانے پینے سے غروب آفتاب تک رکا رہے۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کو پانی میں غرق ہونے سے بچانا چاہتا ہے یا پھر دشمن سے بچانا چاہتا ہے لیکن یہ کام روزہ افطار کیے بغیر ممکن نہیں تو وہ روزہ افطار کر کے اپنے بھائی کو بچائے اور سورج غروب ہونے تک کھانے پینے سے رکا رہے، اور صرف اسی دن کی قضا بھی دے؛ کیونکہ اس شخص نے ضرورت کی بنا پر روزہ افطار کیا تھا، اس لیے کہ معصوم شخص کی جان کو بچانا واجب ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (16/ 164)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب