اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اھل قرآن (منکرین حدیث ) کے متعلق

سوال

ایک ایسی جماعت پائ جاتی ہے جو کہ اپنے آپ کو ( اھل قرآن ) کہتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے سوا کسی چیز پر نہیں چلتے ، تو آپ ان کے اس قول کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کا مصدرنہیں ہے ، اوروہ اپنے آپ کو اھل قرآن کا نام دیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ قرآن ہمارا امام ہے اس میں جو کچھ حلال ہے ہم اسے حلال اور جو حرام کیا گيا ہے اسے حرام جانتے ہیں ۔

اور ان کے خیال میں سنت نبویہ میں ایسی احادیث داخل کر دی گئيں ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں بلکہ ان کے ذمہ جھوٹ ہے ، تو یہ لوگ ایسی قوم میں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے :

( قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگا کر بیٹھا ہو گا تو اسے میری احادیث میں سے کو‏‏ئ حديث بیان کی جاۓ گی اور وہ جواب میں کہے گا کہ اللہ تعالی کی کتاب کا فی ہے اس میں ہم جو اشیاء حلال پائيں گے اسے حلال جانے اور جو کچھ حرام پائيں گے اسے حرا م جانیں گے ، خبردار ! اور بیشک اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حرام کیا ہے وہ بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ کی طرح ہے ) الفتح الکبیر ( 3 / 438 ) اور امام ترمذی نے اسے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا اور اسے حسن صحیح کہا ہے ( سنن ترمذی بشرح ابن العربی ، ط ، الصاوی 10 / 132 )

اور یہ لوگ حقیقتا اھل قرآن بھی نہیں اور نہ ہی قرآن پر عمل کرتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ایک سو سے زیادہ آیات میں قرآن مجید نے نبی مکرم صلی اللہ تعالی وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ کی اطاعت کواللہ تعالی کی اطاعت قرار دیا ہے ۔

اسی کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :

جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی ہی اطاعت کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا النساء ( 80 )

بلکہ قرآن پر چلنے والے کا دعوی کرنے والوں کو تو قرآن یہ کہتا ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ترک کی اور ان کا حکم نہ مانا تووہ مومن ہی نہیں ہے ۔

اللہ تعالی نے اسی کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے :

قسم ہے تیرے رب کی ! یہ اس وقت مومن ہی نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلافات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم نہ مان لیں ، پھر آپ جو فیصلہ فرما دیں اس کے متعلق وہ اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائيں اور اسے فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں النساء ( 65 )

اور ان کا یہ کہنا کہ : سنت میں موضوع احادیت داخل کر دی گئيں ہیں یہ قول اس لۓ مردود ہے کہ اس امت کے علماء نے احادیث کو ہر قسم کی داخل ہو نے والی دوسری اشیاء سے بہت سخت حفاظت کا اہتمام کیا ہے ، حتی کہ انہوں نے راوی کے صدق میں شک اور اس کے بھول جانے کےاحتمال کو بھی حدیث کے رد کرنے کا سبب قرار دیا ہے اور اس کی حدیث قبول نہیں کی ، اور امت مسلمہ کے دشمن بھی اس کے معترف ہیں کہ امت محمدیہ کے علاوہ کوئ دوسری اور امت ایسی نہیں جس نے اسناد کی چھان پھٹک کی ہو اور پھر خاص کر جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی گئ ہیں اس میں بہت ہی زیادہ اہتمام ہے ۔

اور حدیث پر عمل کے وجوب کے لۓ اتنا ہی کا فی ہے کہ اس بات کی معرفت ہوکہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہی کافی سمجھتے تھے کہ دعوت کے لۓ صرف ایک ہی صحابی کو بھیجا جاۓ جو کہ اس بات پر دلالت ہے کہ خبرواحد بھی بھی عمل کرنا واجب ہے جبکہ وہ ثقہ ہو ۔

پھر ہم ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ وہ آیات کہاں ہے جس میں نماز کی کیفیت بیان کی گئ ہے ، اور یہ کہ پانچ نمازيں فرض ہیں ، اور زکاۃ کا نصاب کو نسی آیات میں ہے ، اور حج کی تفصیل کہاں ہے ، اور اس کے علاوہ دوسرے احکام جو کہ سنت علاوہ جانے ہی نہیں جا سکتے ۔ الموسوعۃ الفقہیۃ ( 1/ 44 )

سنت نبویہ پر اس کے علاوہ اور بھی شرعی دلائل معلوم کرنے کے لۓ سوال نمبر ( 604 ) کو دیکھیں ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد