الحمد للہ.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ جوکہ مکہ مکرمہ والی جانب ہے کوعید قربان کے دن چاشت کے وقت سات کنکریاں ماریں اورہرکنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے ، اورکنکری بھی چنے کے دانے سے کچھ بڑی تھی ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پرتھے تو عقبہ کی صبح مجھے فرمانے لگے :
( ادھرآؤ اورمیرے لیے کنکریاں چنو ، ابن عباس رضي اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کنکریاں چنیں اوروہ انگلی ناخن پررکھ کرپھینکی جانے والی چھوٹی چھوٹی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کنکریاں اپنے ہاتھ میں رکھیں اورفرمانے لگے : اس طرح کی کنکریاں مارو ۔۔۔ اورغلو سے اجتناب کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ بھی دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 3029 )
صحیح ابن ماجہ میں علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے ۔ دیکھیں حدیث نمبر ( 2455 ) ۔
امام احمد اورابوداود رحمہمااللہ نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہماسے روایت کیا ہےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( بیت اللہ کا طواف اورصفامروہ کے مابین سعی اوررمی جمرات توصرف اللہ تعالی کا ذکر قائم کرنے کےلیے ہے ) ۔
رمی جمرات کی مشروعیت میں یہ ہی حکمت ہے ۔
رمی جمرات میں بعض حجاج کرام جن غلطیوں کا مرتکب ہوتے ہیں وہ کئي ایک طرح کی ہیں :
اول :
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگرکنکریاں مزدلفہ سے لی جائيں تورمی صحیح ہوگي وگرنہ نہيں ، اس لیے آپ بہت سارے لوگوں کودیکھیں گے کہ وہ منی روانہ ہونے سے قبل مزدلفہ سے ہی کنکریاں اکٹھی کرتے پھرتے ہيں ، تواس یہ خیال اورگمان غلط ہے کیونکہ کنکریاں کسی بھی جگہ سے حاصل کی جاسکتی ہیں مزدلفہ سے اٹھالیں یا پھرمنی سے یا کسی اورجگہ سے مقصدتوکنکریاں حاصل کرنا ہے ۔
اورپھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے کنکریاں چنی تھیں تا کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ مزدلفہ سے کنکریاں اٹھانا سنت ہے ، تواس طرح مزدلفہ سے کنکریاں حاصل کرنا نہ توسنت ہے اورنہ ہی واجب ، کیونکہ سنت وہ ہے جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل یا پھر اقرار سے ثابت ہو ، اوریہ سب کچھ ہی مزدلفہ سے کنکریاں اٹھانے میں ثابت نہيں ہے ۔
دوم :
بعض لوگ کنکریاں اٹھانے کے بعد یاتواس احتیاط کی وجہ سے کہ ہوسکتا ہے اس پرکسی نے پیشاب کردیا ہو ، یاپھر اپنے خیال کے مطابق صاف ستھری کنکریاں افضل ہیں کی وجہ سے دھوتے ہیں ، بہرحال جمرات کومارنے کے لیے کنکریاں دھونا بدعت ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام نہيں کیا ۔
اورکسی ایسی چيزسے عبادت کرنا جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہيں بدعت ہے ، اورجب وہ شخص عبادت کے علاوہ کسی اورچيزمیں ایسا کام کرتا ہے توپھر وہ وقت کا ضياع اوربےوقوفی ہے ۔
سوم :
بعض لوگ یہ خيال کرتے ہیں کہ یہ جمرات ہی شیطان ہیں ، اوروہ شیطان کوکنکریاں مار رہے ہیں ، اس لیے آپ کئي ایک کودیکھیں گے کہ وہ جمرات کوبہت زيادہ غصہ اورشدت اورغضب سے کنکریاں مارتا اورایسے جذبات کا اظہارکرتا ہے گویا کہ شیطان اس کے سامنے کھڑا ہے ، تواس سے کئي ایک مفاسدمرتب ہوتے ہیں :
1 - یہ گمان اورخیال غلط ہے ، کیونکہ ہم تواللہ تعالی کے ذکراورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کرنے اورحقیقی عبادت کوثابت کرنےکے لیے رمی جمرات کررہے ہیں ، اس لیے کہ جب کوئي انسان اطاعت وپیروی کا عمل کرے اوراسے اس کے فائدہ کا علم نہيں ہو تووہ اسے اللہ تعالی کی عبادت کے لیے کرے تویہ عمل اللہ تعالی کے سامنے اس کی عاجزی اورخضوع پرزیادہ دلالت کرتا ہے ۔
2 - انسان وہاں پوری قوت اورجذبات اورشدید غیظ وغضب کے ساتھ کنکریاں مارنے آتا ہے توآپ دیکھیں گے کہ وہ خود بھی تکلیف اٹھاتا ہے اوردوسروں کے لیے بھی بہت زيادہ تکلیف کا باعث بنتا ہے گویا کہ اس کے سامنے دوسرے لوگوں کی کوئي اہمیت ہی نہيں اوروہ حشرات ہیں ان کی کوئي پرواہ ہی نہیں کرتا اورخيال نہيں رکھتا بلکہ بپھرے ہوئے اونٹ کی طرح آگے بڑھتا ہے
3 - انسان کواپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت میں مصروف ہے یا پھروہ اس رمی کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کررہا ہے ، اس لیے اسے کنکریاں مارتے وقت وہی کلمات کہنے چاہیيں جومشروع ہیں ، اوراسے غیرمشروع کلمات کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
آپ دیکھیں گے کہ ایسا شخص رمی کرتے ہوئے کہتا ہے اے شیطان سے غصہ کرتے اوررحمن کی رضامندی کے لیے ۔
حالانکہ رمی کرتےہوئے ایسے کلمات کہنے مشروع نہيں بلکہ رمی جمرات میں مشروع تویہ ہے کہ ہرکنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا ۔
4 - اس فاسد اورغلط عقیدہ رکھنے کی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ وہ حاجی بڑے بڑے پتھر لیتا ہے کیونکہ اس کا یہ خیال ہے کہ جتنا بڑا پتھر ہوگا شیطان پراثر بھی اتنا ہی زيادہ ہوگااورانتقام بھی اتنا ہی شدید ہوگا ، آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ وہ اسے جوتے اورلکڑیاں وغیرہ اسی چيزیں بھی مارہا ہے جومشروع نہيں ہیں ۔
توجب ہم یہ کہيں کہ : ایسا اعتقاد رکھنا فاسد ہے توپھررمی جمرات کے بارہ میں کیا اعتقاد رکھنا چاہیے ؟
رمی جمرات میں ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کی تعظيم اورعبادت اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کے لیے رمی جمرات کرتے ہیں ۔
چہارم :
بعض لوگ اس بارہ میں سستی کرتے ہيں اورانہيں کوئي پرواہ نہيں ہوتی کہ کیا کنکری اپنی جگہ پرگری ہے کہ نہيں ؟
کنکری جب مارے جانی والی جگہ یعنی حوض میں نہ گرے تورمی صحیح نہيں ، اس میں صرف اتنا ہی کافی ہے کہ کنکری اپنی جگہ پرگری ہے اس میں یقین کی شرط نہيں کیونکہ بعض اوقات یقین مشکل ہوتا ہے ، اورجب یقین مشکل ہوتوپھر ظن غالب پرعمل کیا جائے گا ، کیونکہ شارع نے بھی شک نماز میں شک کی حالت میں ظن غالب کی طرف ہی لوٹایا ہے ۔
جب کسی کوشک ہوکہ آیا اس نے نماز کتنی پڑھی ہے تین یا چار؟
تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اسے صحیح تلاش کرنا چاہیے اورپھراس صحت پربنیاد رکھے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1020 ) ۔
اوریہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عبادت کے امورمیں ظن غالب ہی کافی ہے ، اوریہ اللہ تعالی کی جانب سے آسانی ہے کیونکہ بعض اوقات یقین ہوتا ہی نہیں ۔
اورجب حوض میں کنکری گرجائے تواس کی یہ کنکری شمار ہوگي چاہے وہ حوض میں ہی رہے یا پھر حوض میں گرنے کے بعد وہاں سے لڑھک جائے
پنجم :
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کنکری ستون کوضرور لگنی چاہیے یہ گمان بھی صحیح نہيں بلکہ غلط ہے کیونکہ رمی میں یہ شرط نہيں کہ کنکری اس ستون کوضرورلگنی چاہیے ، کیونکہ یہ ستون توصرف بطورعلامت ہے کہ یہاں کنکریاں پھینکنی ہیں ، لھذا جب کنکری اس ستون کے ارد گرد دائرے میں گرے تویہ شمار ہوگی چاہےوہ ستون کولگے یا نہ لگے ۔
ششم :
یہ بہت ہی عظیم اورفاش غلطیوں میں سے ہے کہ بعض لوگ رمی کرنے میں سستی سے کام لیتے ہیں اورطاقت اورقدرت ہونے کے باوجود کسی دوسرے کواپنی کنکریاں مارنے کا وکیل بناتے ہیں جوکہ بہت بڑي غلطی ہے ، کیونکہ رمی جمرات حج کی علامات اوراعمال میں سے ہيں اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اوراللہ تعالی کےلیے حج اورعمرہ پورا کرو البقرۃ ( 196 ) ۔
اوررمی جمرات اتمام حج میں شامل ہے کہ حج کےپورے شعائر ادا کیے جائيں لھذا انسان پرواجب ہے اورضروری ہے کہ وہ خود ہی کنکریاں مارے اوراس میں ( قدرت رکھتے ہوئے ) کسی دوسرے کووکیل نہ بنائے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں : رش بہت زيادہ ہے ، اورمجھے اس میں مشقت ہے ، توہم اسے یہ کہیں گے : جب لوگوں کے مزدلفہ سے منی پہنچتے وقت شروع میں رش ہوتا ہے دن کے آخرمیں وہاں رش نہيں رہتا ، اورنہ ہی رات کے وقت بہت زيادہ رش ہوتا ہے ، لھذا اگرآپ دن کورمی نہيں کرسکے توآپ رات کورمی کرلیں کیونکہ رات میں بھی رمی ہوسکتی ہے اوریہ بھی رمی کا وقت ہے اگرچہ دن میں رمی کرنا افضل اوربہتر ہے ۔
لیکن اگرانسان دن کی بنسبت رات کوبڑے آرام اورسکون اوراطمنان اورخشوع سےرمی کرسکتا ہے تواس کا دن کی بجائے رات کورمی کرنا افضل ہے اوردن کے وقت تنگي اوررش اورشدت کی بنا پرموت کودعوت دیتا پھرے اورہوسکتا ہے کہ کنکری حوض میں بھی نہ گرے ۔
اہم یہ ہے کہ جوکوئي بھی رش اورازدھام کی دلیل دیتا ہے ہم اسے یہی کہيں گے : اللہ تعالی نے اس معاملہ میں وسعت رکھی ہے اس لیے آپ رات کے وقت رمی کرلیں ۔
اوراسی طرح اگرعورت لوگوں کے ساتھ رمی کرتے ہوئے ڈرے تواسے بھی رات تک رمی میں تاخیر کرلینی چاہیے ، اوراسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل وعیال میں سے کمزور - مثلا سودہ بنت زمعہ وغیرہ - اشخاص کوخود رمی نہ کرنےاوراس میں کسی دوسرے کووکیل بنانے کی رخصت نہيں دی - اگریہ جائزہوتا تو آپ رخصت دیتے - بلکہ آپ نے توانہيں یہ اجازت دی تھی کہ وہ مزدلفہ سےرات کوہی منی روانہ ہوجائيں اورلوگوں کے پہنچنے سے قبل ہی رمی جمرہ کرلیں ، اوریہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ عورت رمی جمرات میں عورت ہونے کےناطے کسی دوسرے کووکیل نہیں بناسکتی ۔
جی ہاں اگرفرض کرلیا جائے کہ انسان عاجز ہے اوروہ خود رمی نہيں کرسکتا دن میں بھی نہيں اورنہ ہی رات کے وقت تواس شخص کےلیے وکیل بنانا جائز ہوگا کیونکہ وہ عاجز ہے ، صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم سے ثابت ہے کہ بچوں کےرمی نہ کرسکنے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی جانب سے رمی کیا کرتے تھے ۔
بہرحال اس معاملہ میں سستی اورکاہلی - میری مراد یہ ہے کہ بغیرکسی ایسے عذرکے جس کی بنا پررمی کرنا ممکن نہ ہو - کرنا بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ یہ عبادت میں سستی وکاہلی اورواجب کی ادائيگي میں کوتاہی ہے ۔
واللہ اعلم .