سوموار 11 ربیع الثانی 1446 - 14 اکتوبر 2024
اردو

دو احادیث (ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے۔۔۔) اور (میرے بندو! تم اتنے طاقتور نہیں کہ مجھے نقصان پہنچا سکو۔۔۔) کے درمیان مطابقت

سوال

ہم اللہ تعالی کے حدیث قدسی میں فرمان: (میرے بندو! تم اتنے طاقتور نہیں کہ مجھے نقصان پہنچا سکو) اور اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: (ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے اور زمانے کو برا کہتا ہے، حالانکہ میں زمانہ ہوں ، یعنی میرے ہی ہاتھ میں معاملات ہیں دن اور رات کو میں ہی آگے پیچھے لاتا ہوں) مجھے امید ہے کہ آپ جواب آسان انداز میں دیں گے تا کہ میں سمجھ سکوں، اور ان شاء اللہ کسی دوسرے کو بھی سمجھا سکوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے اور زمانے کو برا کہتا ہے، حالانکہ میں زمانہ ہوں ، یعنی میرے ہی ہاتھ میں معاملات ہیں دن اور رات کو میں ہی آگے پیچھے لاتا ہوں) اس حدیث کو امام بخاری: (4826) اور مسلم : (2246)نے روایت کیا ہے۔

یہ حدیث سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے متصادم نہیں ہے کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (میرے بندو! تم اس حد تک نہیں پہنچ سکتے کہ مجھے نقصان پہنچاؤ ، اور نہ ہی مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو) مسلم: (2577)

کئی طرح سے واضح ہوتا ہے کہ ان دونوں احادیث میں کوئی تصادم نہیں ہے:

پہلی وجہ:

اذیت پہنچنے کی صورت میں نقصان ہونا ، اور اذیت کے ساتھ لازما نقصان پایا جانا یہ انسانوں کے بارے میں ہے؛ کیونکہ انسان طبعی طور پر کمزور ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالی سبحانہ و تعالی کی ذات جیسی تو کوئی ذات ہی نہیں ہے، اس لیے اذیت کے ہوتے ہوئے نقصان ہونا اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں محال ہے۔

جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ سبحانہ و تعالی کو پہنچنے والی اذیت ایسی نہیں ہے جیسی مخلوق کو پہنچنے والی اذیت ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی جس طرح اللہ تعالی کی ناراضی، غضب، اور ناپسندیدگی بھی مخلوق جیسی نہیں ہوتی۔" ختم شد
"الصواعق المرسلة" (4 / 1751)

لہذا یہاں اذیت کا معاملہ بھی اللہ تعالی کی صفت ناراضی جیسا ہے؛ کیونکہ انسان کی ناراضی کسی دوسرے کے تصرفات کی وجہ سے ہوتی ہے جن کی بدولت ممکن ہے کہ انسان کو نقصان بھی ہو، لیکن اللہ تعالی کو ناراض کرنے والے کے بارے میں خود اللہ تعالی نے متنبہ کر دیا ہے کہ یہ اسے نقصان نہیں دے سکتا۔

جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ  ترجمہ: یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالی کو ناراض کرنے والی اشیا کی پیروی کی، رضائے الہی کو ناپسند سمجھا تو اللہ تعالی نے ان کے اعمال اکارت کر دئیے۔[محمد: 28]

حالانکہ انہوں نے اپنے کفر اور برے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالی کو ناراض کر دیا، لیکن پھر بھی وہ اللہ تعالی کا کچھ بگاڑ نہ سکے، نہ ہی نقصان پہنچا سکے؛ چنانچہ مزید فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ
ترجمہ: یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا، اور اللہ کے راستے سے روکا، ان کے لیے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کی تو وہ اللہ تعالی کو ہر گز معمولی نقصان بھی نہیں پہنچا سکے، اور اللہ تعالی جلد ہی ان کے اعمال اکارت فرما دے گا۔ [محمد: 32]

دوسری وجہ:

اذیت کا لفظ ایسی تکلیف پر بولا جاتا ہے جو ہلکی نوعیت کی ہو، اور اس میں متعلقہ شخص کا نقصان بھی نہ ہو۔

جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ لفظ اذیت لغوی طور پر ایسی تکلیف پر بولا جاتا ہے جو ہلکی نوعیت کی ہو، اس کے برے اثرات معمولی نوعیت کے ہوں، اس بات کا تذکرہ خطابی رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم نے کیا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے؛ کیونکہ جہاں جہاں پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے ان سب کو جمع کر کے دیکھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا:
لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى
ترجمہ: وہ تمہیں اذیت والی باتوں کے سوا کوئی نقصان ہرگز نہیں پہنچا سکتے ۔[آل عمران: 111]

اسی لیے تو اللہ تعالی نے محض اذیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
ترجمہ: یقیناً جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں۔[الاحزاب: 57]

ایسے ہی حدیث قدسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے اور زمانے کو برا کہتا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا تھا: (کون کعب بن اشرف کا خاتمہ کرے گا؛ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو خوب اذیت دی ہے؟) ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی سنائی جانے والی اذیت پر اللہ تعالی سے بڑھ کر صبر کرنے والا نہیں ہے، لوگ اللہ تعالی کا شریک بناتے ہیں، اور اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں، لیکن پھر بھی اللہ تعالی انہیں عافیت سے نوازتا ہے اور انہیں رزق بھی عطا کرتا ہے۔) جبکہ دوسری جانب اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا: (میرے بندو! تم اتنے طاقتور نہیں کہ مجھے نقصان پہنچا سکو) اور اسی طرح قرآن کریم میں فرمایا:  وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ترجمہ: کفر میں جلد بازی کرنے والے لوگ آپ کو غمگین نہ کریں؛ یہ قطعی طور پر اللہ تعالی کا ہر گز نقصان نہیں کر سکتے۔[آل عمران: 176]

تو اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ مخلوق میں سے کوئی بھی کفر کر کے اللہ تعالی کا نقصان نہیں کر سکتا، تاہم اللہ تعالی کو اذیت دیتے ہیں جب زمانے کو چلانے والے کو برا کہتے ہیں، جب یہ لوگ اللہ کی اولاد بناتے ہیں یا اس کا کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں، یا اللہ کے رسولوں اور اللہ کے مومن بندوں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔" ختم شد
"الصارم المسلول" (2 / 118 – 119)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ ضروری نہیں ہے کہ اذیت سے نقصان اور ضرر بھی ہو؛ کیونکہ کئی بار انسان بری باتیں سن اور دیکھ کر اذیت تو محسوس کرتا ہے، لیکن اس مشاہدے یا سماعت سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا، اسی طرح ناگوار بو جیسے کہ پیاز اور لہسن کی بو سے اذیت تو محسوس کرتا ہے لیکن اس سے انسان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اذیت کو ثابت قرار دیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:  إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا 
ترجمہ: یقیناً جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ تعالی نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرمائی ہے، نیز ان کے لیے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔[الاحزاب: 57] اسی طرح حدیث قدسی میں ہے کہ: (میرے بندو! تم اس قدر طاقت کو نہیں پہنچ سکتے کہ مجھ کو نقصان پہنچا سکو)" ختم شد
"القول المفيد" (2 / 241)

اسی طرح الشیخ عبد اللہ بن عقیل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دونوں احادیث میں مطابقت اس طرح ہو گی کہ دونوں میں کوئی تناقض اور تصادم ہے ہی نہیں، الحمد للہ؛ کیونکہ اذیت کا درجہ نقصان سے کہیں کم ہے، نیز ان دونوں میں کوئی ایک دوسرے کو لازم اور ملزوم بھی نہیں ہے، نیز اذیت کا ثبوت قرآن کریم میں موجود ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کے فرمان میں ہے کہ:  إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا 
ترجمہ: یقیناً جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ تعالی نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرمائی ہے، نیز ان کے لیے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔[الاحزاب: 57]
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو ان چیزوں سے اذیت ہوتی ہے جو حدیث میں ذکر کی گئی ہیں، لیکن یہ بات بھی حتمی ہے کہ بندوں کی طرف سے اللہ تعالی کا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ترجمہ: کفر میں جلد بازی کرنے والے لوگ آپ کو غمگین نہ کر دیں؛ یہ قطعی طور پر اللہ تعالی کا ہر گز نقصان نہیں کر سکتے۔[آل عمران: 176]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
 وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا  ترجمہ: اپنی ایڑھیوں کے بل منہ موڑ لینے والا ہرگز اللہ تعالی کو کچھ بھی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ [آل عمران: 144]۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنے خطبہ میں عام طور پر کہا کرتے تھے: (اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اللہ کا کچھ نقصان نہیں کرتا۔) ختم شد
"فتاوى ابن عقيل" (2/273)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب