بدھ 15 شوال 1445 - 24 اپریل 2024
اردو

ایسے ویب پورٹل پر کام کیسا ہے جو گاہک اور خدمات پیش کرنے والوں کے درمیان بروکری کا کام کرتا ہے؟

سوال

آج کل نوجوانوں میں freelancing ویب سائٹس پر کام کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، یہ ویب پورٹل سروس پیش کرنے والوں اور سروسز طلب کرنے والوں کے درمیاں کمیشن ایجنٹ کا کام کرتے ہیں، ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی گاہک آ کر کسی بھی کام کا اعلان لگاتا ہے، اور پھر مختلف لوگ اسے اپنی اپنی طرف سے آفر کرتے ہیں، تو جب گاہک ان میں سے مناسب آفر کو قبول کر لے تو طے شدہ رقم ویب سائٹ کے ہاں جمع کروا دیتا ہے، اور ویب سائٹ اس رقم کو اپنے پاس محفوظ رکھتی ہے، یہاں تک کہ گاہک مطلوبہ کام سے مطمئن ہو جاتا ہے اور ویب سائٹ کو بتلاتا ہے کہ اسے مطلوبہ خدمت مل چکی ہے تو پھر یہ ویب سائٹ جمع شدہ رقم کو خدمات پیش کرنے والوں کو منتقل کر دیتی ہے ، اور عام طور پر یہ کام دس دن میں ہوتا ہے، رقم منتقل کرنے سے قبل ویب سائٹ اپنا مختص کمیشن بھی وصول کرتی ہے، تو اس طرح سے کام کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا خلاصہ

خدمات پیش کرنے والوں اور خدمات طلب کرنے والوں کے درمیان بروکری کا کردار ادا کرتے ہوئے معاوضہ لینا جائز ہے، اسے دلالی اور فقہا کی زبان میں سمسرہ کہا جاتا ہے، تاہم اس کے شرط یہ ہے کہ جس خدمت کے لیے معاہدہ ہو رہا ہے وہ مباح ہو، اس کی تفصیلات مکمل جواب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

خدمات پیش کرنے والوں اور خدمات طلب کرنے والوں کے درمیان آڑھتی کا کردار ادا کرتے ہوئے معاوضہ لینا جائز ہے، اسے دلالی اور فقہا کی زبان میں سمسرہ کہا جاتا ہے، تاہم اس کے شرط یہ ہے کہ جس خدمت کے لیے معاہدہ ہو رہا ہے وہ مباح ہو۔

یہاں پر دلال شخص گاہک کو اس کا مطلوب شخص فراہم کرتا ہے اور کام کے مکمل ہونے کی ضمانت دیتا ہے، اور اس فراہمی اور ضمانت کے عوض میں کمیشن وصول کرتا ہے، اب چاہے یہ کمیشن صرف گاہک سے وصول کرے یا خدمات پیش کرنے والے یا حسب معاہدہ دونوں سے لے؛ کیونکہ وہ دونوں کے لیے کام کر رہا ہے۔

جیسے کہ امام بخای رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے کہ:
"باب ہے دلالی کی اجرت کے بارے میں: ابن سیرین، عطاء، ابراہیم نخعی، اور حسن بصری دلال کی اجرت میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: کوئی شخص یہ کہے کہ: یہ کپڑا اتنے میں فروخت کر دو اور اس سے زیادہ جتنا بھی ہو گا وہ تمہارا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اسی طرح ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر مالک کہے: اس چیز کو اتنے میں فروخت کر دو، اس میں جتنا نفع ہو گا وہ تیرا، یا ہم دونوں تقسیم کر لیں گے۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مسلمانوں کے معاملات ان کی متفقہ شرائط کے مطابق ہوتے ہیں۔)" ختم شد

اسی طرح فتاوی دائمی فتوی کمیٹی: (13/ 129) میں ہے کہ:
"جب دلال ، بائع، اور مشتری کے درمیان مشترکہ معاہدہ ہو جائے کہ دلال اپنا کمیشن خریدار سے یا دکاندار سے یا دونوں سے معلوم محنت کے عوض وصول کرے گا، تو یہ جائز ہے۔ اس کے جائز ہونے کے لیے کمیشن مقرر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ جس مقدار پر بھی باہمی رضا مندی ہو جائے تو یہ جائز ہوتا ہے۔

تاہم یہ ضرور ہے کہ اتنی مقدار میں ہی کمیشن لے جس قدر لوگوں کے عرف میں مشہور ہو، اور اس سے دلال کو اپنی محنت کا فائدہ بھی ہو کہ اس نے بائع اور مشتری کے درمیان بیع مکمل کرانے کے لیے محنت کی ہے۔ اور دوسری طرف بائع یا مشتری پر اس کمیشن کی وجہ سے بوجھ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ عرف سے زیادہ کمیشن طلب کیا جائے۔" ختم شد

اور اگر پیش کردہ خدمت حرام ہے، مثلاً: شراب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنی ہے، یا کسی سودی بینک میں مرمت کا کام کرنا ہے تو ایسی صورت میں دلالی جائز نہیں ہو گی؛ کیونکہ اس میں نافرمانی پر اعانت کا عنصر پایا جاتا ہے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
 ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدہ: 2]

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب