الحمد للہ.
زكاۃ كے مصارف آٹھ ہيں جسے اللہ تعالى نے مندرجہ ذيل آيت ميں بيان كرتے ہوئے فرمايا:
( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )
ترجمہ: زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور گردنیں آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے ۔ التوبۃ / 60
اور ( سبيل اللہ ) سے اللہ تعالى كا كلمہ بلند كرنے كے ليے جھاد فى سبيل اللہ مراد ہے، لہذا مجاہد كو اس كى ضروريات ،نفقہ اور اسلحہ وغيرہ خريدنے كے ليے زکاۃ دی جائے گی۔۔۔
اہل علم كا كہنا ہے كہ:
"فى سبيل اللہ" ميں وہ شخص بھى شامل ہے جو اپنے آپ كو شرعى علم كے حصول كے ليے فارغ كر ليتا ہے، تو اسے بھى زكاۃ ميں سے نفقہ ، لباس كھانے پينے اور اس كى رہائش اور كتب كے ليے مال ديا جائے گا، اور جو اس كى ضروريات ہيں وہ پورى كى جائيں گى، كيونكہ شرعى علم "جھاد فى سبيل اللہ "كى ايك قسم ہے، بلكہ امام احمد رحمہ اللہ تو كہتے ہيں كہ: "جس شخص كى نيت صحيح ہو تو اس كے ليے علم كے برابر كوئى چيز نہيں ہے"
لہذا علم شريعت كى بنیاد ہے، لہذا علم كے بغير شریعت ہى نہيں ہے، اور اللہ تعالى نے كتاب اس ليے نازل فرمائى كہ لوگ انصاف كريں اور شرعى احكام كى تعليم حاصل كريں، اور نظریاتی و عملی عقیدہ سیکھیں۔
جبکہ جہاد فى سبيل اعلى و افضل ترين عمل ہے بلكہ يہ اسلام كى كوہان اور چوٹى ہے، اور اس كی فضلیت ميں كسى بھى قسم كا شك و شبہ نہيں، ليكن اسلام ميں علم شرعى كى بھى بہت شان ہے، لہذا اس كا جہاد ميں داخل ہونا واضح ہے جس ميں كسى بھى قسم كا اشكال نہيں۔ انتہی
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 337 - 338 )
دائمی فتوى كميٹى سے پوچھا گيا:
كيا بہت زيادہ محتاج اور ضرورتمند طلباء کو زكاۃ دينى جائز ہے؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
جى ہاں ان كى ضروريات كى بنا پر انہيں زكاۃ دينى جائز ہے، كيونكہ وہ اس كے محتاج ہيں۔
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 17 ).
اور " الموسوعة الفقهية " ميں ہے كہ:
" فقہاء كرام كا طالب علم كو زكاۃ دينے كے متعلق اتفاق ہے، چنانچہ احناف شوافع اور حنابلہ نے اسے صراحتا جائزكہا ہے، اور مالكى مذہب سے بھى يہى سمجھ آتى ہے.... اور بعض احناف يہ بھى كہتے ہيں كہ اگر طالب علم اپنے آپ كو شرعى علم كے ليے فارغ كر لے چاہے وہ طالب علم غنى اور مالدار بھى ہو تو اس كے ليے زكاۃ لينا جائز ہے، كيونكہ وہ كمائى كرنے سے عاجز ہے۔
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر کوئی طالب علم اپنی حیثیت کے مطابق محنت مزدوری کرسکتا ہے ، لیکن وہ شرعی علم حاصل کرنے کیلئے اتنا مصروف ہےکہ اگر مزدوری کرنے لگ جائے تو علم حاصل نہیں کر پائے گا، تو اسکے لئے زکاۃ لینا جائز ہوگا، کیونکہ علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے،۔۔۔ ۔
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے متعلق سوال كيا گيا جس كے پاس پڑھنے کیلئے كتب خريدنے کی رقم نہیں ہے اس كا حكم كيا ہے؟
تو شيخ الاسلام كا جواب تھا:
اس كے ليے اتنى زكاۃ لينا جائز ہے جو اس كى ضروريات كى كتب خريدنے كے ليے كافى ہو جن كے بغير اس كے دين و دنيا كى مصلحت پورى نہيں ہوتى۔
بہوتى کہتے ہیں:
لگتا ہے كہ [طلباء کو زکاہ دینا] مصارف زكاۃ سے خارج نہيں، كيونكہ يہ طالب علم كى ان ضروريات ميں شامل ہے جس كا وہ محتاج ہے، لہذا يہ اس كے نفقہ كى طرح ہى ہے، اور فقہائے كرام نے صرف شرعى علوم کے طلباء كو ہى زكاۃ دينے كے ليے خاص كيا ہے۔
اور احناف نے صراحت کیساتھ کہا ہے کہ طلباء کیلئے ایک ملک سے دوسرے ملک زکاۃ منتقل کی جاسکتی ہے۔مختصر اقتباس از : الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 337 ).
واللہ اعلم .