جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

مشہور لوگوں کے شرمناک واقعات پڑھنے کا حکم

سوال

ایسی خبروں کو پڑھنے کا کیا حکم ہے جس میں کسی بھی شخص کی شرمناک حرکتوں کا ذکر ہو، پڑھنے والا محض پڑھے گا آگے نشر نہیں کرے گا۔ اگر ان واقعات کو پڑھنے والا شخص ان کی مزید تفصیلات جاننے کے لیے خود ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹس دیکھتا ہے تو کیا یہ کسی کی عیب جوئی میں شامل ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مغرب کی جانب سے پیدا کی گئی یہ میڈیا کی خرابی ہے کہ انہوں نے ذرائع ابلاغ میں کام کرنے کے لیے بطور خاص ملازمت پیدا کی کہ مشہور لوگوں کی زندگی کے بارے میں ٹوہ لگائیں اور ان کی زندگی کے نجی گوشوں کو جمع کریں، اس کے لیے وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ چونکہ یہ لوگ مشہور ہو چکے ہیں اس لیے تمام لوگوں کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کی زندگی کے نجی گوشوں کے متعلق بھی جانکاری حاصل کریں۔

پھر اس غلط کام میں ہمارے مسلم معاشرے کے کچھ میڈیا پرسن بھی ملوث ہو گئے ہیں، اور بڑھتے بڑھتے یہ کام اب سوشل میڈیا تک پہنچ چکا ہے، جہاں لوگوں نے محض جاسوسی تک ہی معاملے کو نہیں روکا بلکہ برائی مزید بڑھ گئی اور کچھ لوگ تو جھوٹی تصاویر اور ویڈیوز تک بنا کر کسی بھی ناپسندیدہ شخصیت کی کردار کشی پر لگے ہوئے ہیں۔

اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ اپنا دینی طور پر مکمل خیال رکھے اور ایسی تحریریں پڑھنے سے بالکل اجتناب کرے؛ کیونکہ:

یہ ایسے شخص کے بارے میں ہو سکتی ہیں جس کی غیبت کرنا جائز نہ ہو، ایسے شرمناک واقعات پڑھنے سے غیبت پر رضا مندی کا اظہار ہوتا ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔

سیدنا عدی بن عدی ، عرس بن عمیرہ کندی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب زمین پر کوئی برائی کی جائے اور وہاں حاضر شخص اس برائی کو اچھا نہ سمجھے اور اس سے روکے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ برائی کے وقت حاضر ہی نہیں تھا، اور جو شخص اس برائی کی جگہ موجود نہ تھا، لیکن اس برائی کے متعلق سن کر خوش ہوا تو وہ ایسے ہی جیسے وہ برائی کے وقت موجود تھا۔)
ابو داود: (4345) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابو داود میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

اس لیے مسلمان کی ذمہ داری تو یہ بنتی ہے کہ برائی کو برا جانے اور اس سے روکے چاہے دل میں ہی اسے برا جانے، جبکہ کسی کے شرمناک واقعات کو تلاش کرنا اور ان کی تفصیلات جاننا قلبی طور پر اسے برا جاننے سے متصادم عمل ہے، اس لیے مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دوسروں کی عزت تار تار کرنے والے واقعات نہ پڑھے۔

اور اگر موضوع بحث ایسا شخص ہے جس کی غیبت کرنا اس لیے جائز ہو چکا ہے کہ وہ اعلانیہ گناہ کرتا ہے اور اس گناہ پر فخر بھی کرتا ہے تو مسلمان کو پھر بھی بچنا چاہیے؛ کیونکہ اس میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بنیادی اصول شریعت میں ہمیشہ مد نظر رکھا گیا ہے جیسے کہ ہم نے "سد الذرائع" اور دیگر قواعد کے ضمن میں اس بنیاد کا ذکر کیا ہے ، ہم نے یہ واضح کیا ہے کہ جو کوئی بھی کام اکثر و بیشتر کسی حرام کام کا ذریعہ بنتا ہو، بگاڑ اور خرابیوں کا باعث بنتا ہو، اگر اس میں شرعی فائدہ زیادہ نہ ہو بلکہ اس کی وجہ سے بگاڑ زیادہ ہوتا ہو تو اس کام سے روک دیا جائے گا۔ بلکہ جس کام سے بگاڑ یقینی ہو اور فائدہ یقینی نہ ہو تو اس سے روک دیا جاتا ہے تو ایسے کام سے بالاولی روک دیا جائے گا جس سے اکثر خرابیاں جنم لیتی ہوں۔" ختم شد
"الفتاوى الكبرى" (4/ 465)

اور شرمناک واقعات کے مندرجات واضح طور پر بگاڑ کا باعث بننے والے ہوتے ہیں جس کی وجوہات یہ ہیں:

پہلی وجہ: اس کی وجہ سے برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا، اس طرح خرابیوں کو عام روٹین کی چیز سمجھا جانے لگتا ہے، ایسے شرمناک واقعات کو پھیلانا اور لوگوں کو بتلانا ایک عمومی چیز بن جاتی ہے، اور لوگ آہستہ آہستہ ایسی حرکت میں ملوث ہونا شروع ہو جاتے ہیں، دل میں ایسی برائی کے بارے میں کراہت نہیں رہتی، انسان اس برائی کو برا ہی نہیں سمجھتا، یہ نتائج تب ہیں جب انسان کسی کو یہ باتیں نہ بھی بتلائے اور اس شرمناک واقعہ کی تفصیلات جاننے کے لیے کوشش نہ کرے!!

دوسری وجہ:
ایسے واقعات میں سچ اور جھوٹ سب کچھ شامل ہوتا ہے۔

ابو قلابہ کہتے ہیں کہ ابو مسعود نے ابو عبداللہ سے کہا: یا ابو عبداللہ نے ابو مسعود سے کہا: "آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگوں کے تکیہ کلام: "کہا جاتا ہے" کے متعلق کیا سماعت کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے تھے: (آدمی کا ہر بات میں "کہا جاتا ہے" کہنا بہت برا ہے) اس حدیث کو ابو داود: (4972) نے روایت کیا ہے اور بتلایا کہ یہاں ابو عبد اللہ سے مراد سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (2 / 522) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بلا شبہ اللہ تعالی نے تم پر : ماؤں کی نافرمانی، بچیوں کو زندہ درگور کرنا، خود خرچ نہ کرنا اور لوگوں سے مانگتے رہنا، قیل و قال میں مشغول رہنا، ہر وقت مانگتے رہنا اور مال ضائع کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2408) اور مسلم : (593)نے روایت کیا ہے۔

تیسری وجہ:
جن لوگوں کی غیبت کرنا جائز ہے، ان کی غیبت بھی تبھی جائز ہو گی جب اس کا مقصد اچھا ہو۔

جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کہتے ہیں: شرعی طور پر جائز مقاصد کے لیے غیبت کرنا اس وقت جائز ہے، جب غیبت کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہ ہو۔" ختم شد
"فتح الباری"(10/472)

چنانچہ اگر غیبت کرنے کا کوئی شرعی مقصد نہ ہو تو پھر غیبت کرنا جائز ہی نہیں ہے، اور شرمناک واقعات بیان کرنے والوں کا بھی کوئی اچھا مقصد نہیں ہوتا؛ کیونکہ ان کا انداز ہی ایسا ہے جن سے مزید خرابی تو بڑھتی ہے اس میں بہتری نہیں آتی۔

علامہ صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ: فاسق شخص کو فاسق کہہ کر پکارنا درست ہے، اسی طرح اسے فسادی بھی کہہ سکتے ہیں، ایسے ہی اس کی غیبت بھی کی جا سکتی ہے جب غیبت کا مقصد اس کی خیر خواہی ہو یا کسی دوسرے کو اس کی حالت بیان کر کے نصیحت کرنا مقصود ہو، یا اس جیسی حرکتوں سے کسی کو باز رکھنا مطلوب ہو۔ لیکن اگر اس کی ذات کو نشانہ تنقید بنانا ہدف ہو تو اس ہدف کو درست کرنا لازم ہے۔" ختم شد
"سبل السلام" (8/294)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب