الحمد للہ.
اول :
مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی سالی یا پھر بیوی کی خالہ اور پھوپھی سے مصافحہ کرے ، اورنہ ہی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ خلوت کرنی جائز ہے ، اس لیے کہ یہ اس کی محرمات میں سے نہیں ، بلکہ یہ تو صرف مؤقتا حرمت ہے جوکہ کافی نہیں جس طرح کہ باقی محرمات کے ساتھ مسافحہ اورخلوت ہوسکتی ہے ۔
دوم :
جب نسب یا پھر رضاعت اور شادی کی وجہ سے محرمیت ثابت ہوتو یہ ابدی محرمات میں شامل ہوتی ہے ، بلکہ اصل میں مؤقت محرمات کا وجود ہی نہيں ، بلکہ یہ تو تحریم مؤقت ہے ۔
مرد کی سالی اوراس کی بیوی کی خالہ یا پھوپھی اس کی محرمات میں شامل نہیں بلکہ اس پر تو ان کے ساتھ اپنی بیوی کی موجودگی میں شادی کرنا حرام ہے ۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کافرمان ہے :
حرام کی گئيں تم پر تمہاری مائیں اورتمہاری لڑکیاں اورتمہاری بہنیں ، تمہاری پھوپھیاں ، اورتمہاری خالائيں اوربھائي کی لڑکیاں اوربہن کی لڑکیاں ، اورتمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اورتمہاری دودھ شریک بہنیں ، اورتمہاری ساس ، اورتمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہيں کیا توپھر تم پر کوئي گناہ نہیں ، اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں ، اورتمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ، ہاں جو گزر چکا سوگزرچکا ، یقینا اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے النساء ( 23 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے منع کیا ہے کہ مرد اپنی بیوی اوراس کی خالہ یا پھر پھوپھی کوایک ہی نکاح میں جمع کرلے ۔
اوررہا مسئلہ کسی اجنبی شخص کی بیوی کے بارہ میں تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ : جب تک وہ اپنے خاوند کےنکاح میں ہے اس وقت تک وہ کسی دوسرے شخص کے لیے حرام ہے تویہ تحریم مؤقت ہوئي ، تو جب اسے اس کا خاوند طلاق یا پھر فسخ نکاح یا موت کی بنا پر چھوڑ دے تو عدت ختم ہونے کے بعد دوسرے شخص کے لیے اس سے شادی کرنا حلال ہے ، چاہے اس کی پہلے بھی بیوی ہو لیکن اگر وہ اس کی بیوی کی بہن یعنی سالی یا پھر بیوی کی خالہ یا پھوپھی نہ لگتی ہوتوپھر ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .