اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مسلمانوں كى عمومى مصلحت كے حصول ميں مجبورا كسى برائى كے ارتكاب كى اہم اور دقيق شروط

34718

تاریخ اشاعت : 27-06-2005

مشاہدات : 4457

سوال

ميں ايك كمپنى ميں ملازم ہوں، بعض اوقات كمپنى ہميں ہمارے فن ميں مہارت اور ترقى حاصل كرنے كے ليے ٹريننگ كورس كرواتى ہے تا كہ وظيفہ مل سكے، ليكن ان كورسوں ميں ہميں ايسى ويڈيو كسيٹيں دكھائى جاتى ہيں جن ميں موسيقى اور بعض اوقات عورتوں كا عنصر بھى شامل ہوتا ہے.
يہ علم ميں رہے كہ يہ كورس ہمارے ليے بہت اہم ہيں، اور اگر ہم يہ كورس نہيں كرينگے تو ان كورسوں ميں بدعتى لوگ شامل ہونگے جو سنت كو ناپسند كرتے ہيں، اور اہل سنت سے لڑتے ہيں، يہ لوگ ہمارے ساتھ كام كرتے ہيں، تو اس طرح ہم سے وہ ترقى كر جائيں گے.
ميرا سوال يہ ہے كہ:
اس طرح كے كورس ميں جانے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ كورس منعقد كروانے والے ذمہ داران كو وعظ و نصيحت كرنى چاہيے، اور ان كى راہنمائى كرنى چاہيے كہ ايسے وسائل سے مدد حاصل كريں جو مباح اور جائز ہوں، اور موسيقى اور عورتوں كى تصاوير سے خالى ہوں، اگر تو وہ نصيحت قبول كرتے ہوئے ايسا كرليں تو الحمد للہ اچھى بات، اور اگر ايسا نہ ہو اور اس كمپنى ميں اہل خير و بھلائى كى موجودگى ميں مسلمانوں كے ليے عام فائدہ اور ظاہرى مصلحتيں ہوں، اور آپ لوگوں كا ان كورسوں ميں جانا اور فن ميں مہارت اور ترقى حاصل كرنا بدعتيوں اور منحرف فكر كے لوگوں كے ليے راستہ بند كرنے كا باعث ہو، اور تمہارا ان كورسوں ميں صرف دنياوى مال اور لالچ كى بنا پر نہ ہو، بلكہ صرف مسلمانوں كى عظيم مصلحت كى خاطر ہو تو ہو سكتا ہے اس وقت آپ كا ان كورسوں ميں شامل ہونا مقبول ہو.

ليكن اس كے ساتھ ساتھ نظريں نيچى ركھنے كو كوشش كرے، اور بغير قصد كيے جو كچھ اس سے سرزد ہو اسے ناپسند كرے، اور اس كا مقصد موسيقى سننا نہ ہو، يہ اس ليے كہ دونوں نقصان دہ ميں سے كم ضرر اور نقصان دہ چيز كے ارتكاب كرتے ہوئے، اس ليے كہ اہل خير كے ليے اچھى اور بہتر پوسٹ اور ملازمت كا ہاتھ سے نكل جانا، اور وہاں شرير اور فسادى قسم كے لوگوں كا براجمان ہو جانے ميں بہت زيادہ خرابياں ہيں، اسے دور اور ختم كرنے كى كوشش اور سعى كرنى چاہيے، اگرچہ اس سے كم فساد والى چيز كا ارتكاب ہى كيوں نہ لازم آتا ہو.

ہمارے علماء كرام نے اس سے ملتے جلتے اور مشابہ مسئلہ ميں دونوں ضرر اور نقصان ميں سے زيادہ نقصان سے بچنے كے ليے كم نقصان والى چيز كا ارتكاب كرنے كے قاعدہ اور اصول كو مد نظر ركھتے ہوئے فتوى بھى ديا ہے كہ:

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے بعض عسكرى سٹوڈنٹ نے فوج ميں موسيقى اور ڈھول باجے كے متعلق سوال دريافت كيا تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

( جو بھائى موسيقى يا ڈھول باجے كو ناپسند كرتے ہيں، وہ اپنى اس ناپسنديدگى پر اللہ تعالى كے ہاں اجروثواب كے مستحق ہيں، اگر تو وہ اسے ختم كرنے يا اس ميں كمى كرنے كى استطاعت ركھتے ہوں تو ان سے مطلوب بھى يہى ہے، اور اگر وہ اس روكنے يا اس ميں كمى كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے تو مصلحت كے مقابلہ ميں اس چھوٹى سے خرابى كى بنا پر فوج ميں شامل ہونے كے عظيم مقصد اور مصالح كو ترك نہيں كيا جا سكتا ؛ كيونكہ انسان كو مصالح اور مفاسد يعنى خرابى اور اصلاح ميں فرق اور موازنہ كرنا چاہيے، اور پھر جب اہل خير اور بھلائى چاہنے والے لوگ معصيت اور نافرمانى كى بنا پر اس طرح كے كام ترك كرديں، تو يہ كام اہل شر اور برے لوگوں كے ليے بچ رہيں گے.

اور پھر فوج كى خطرناكى كا تو آپ كو علم ہى ہے، كہ اگر فوج ميں اچھے لوگ نہ ہوں تو كيا خرابياں ہونگى، ميں اس كى مثاليں بيان كرنے ميں كوئى تعيين نہيں كرنا چاہتا كہ جب فوج ميں برے اور شرير لوگ شامل ہو كر بڑے بڑے منصب اور عہدوں پر پہنچے تو پھر كيا ہو؟ اتنا فساد اور شر پھيلا جسے اللہ تعالى ہى جانتا ہے.

لھذا ميں اپنے بھائيوں كو اور خاص كر دين كا التزام كرنے والوں كو فوج ميں شامل ہونے كى تلقين كرتا اور ابھارتا ہوں، اور انہيں چاہيے كہ فوج ميں جتنى بھى ممكن ہو اصلاح كى كوشش كريں اور خرابياں دور كريں، اور يہ خرابى يعنى موسيقى اور گانا بجانا، اور ڈھول باجے ميرے نزدين بلاشبہ خرابى اور فساد ہى ہے، اگرچہ اس ميں اختلاف ہے، جس كا كچھ دير قبل اشارہ بھى كيا گيا ہے.

ليكن ميں يہ كہتا ہوں كہ:

يہ خرابى بہت بڑى اور عظيم بھلائى كے پہلو ميں ڈوبى ہوئى ہے كہ ( اس طرح ) فوج كى قيادت دينى اور مصلح لوگوں كے ہاتھ ميں آئے گى ) انتھى

ماخوذ از : لقاءات الباب المفتوح ( 1 / 102 ) سوال نمبر ( 168 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نے جب لينگويچ كالج كى قسم الاعلام ميں ليكچر ديا تو ان سے سوال كيا گيا:

بعض اوقات ايك مسلمان صحافى كو بعض ايسے پروگراموں اور فنگشنوں ميں بيٹھنا پڑتا ہے جہاں موسيقى ہوتى ہے، اور بعض غلط قسم كى اشياء كا مشاہدہ بھى كرنا پڑتا ہے، تا كہ وہ معاشرے كے ليے اس كے نقصانات اور ضرر بيان كر سكے، تو كيا وہ گنہگار ہو گا؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اگر تو اس سے عام اصلاح مراد ہو نہ كہ اپنا دل بہلانا، اور اس ميں حاضر ہونے كا مقصد شر اور برائى سے لوگوں كو آگاہ كرنا اور بچانا ہو تو اس مقصد كى بنا پر وہ اس جگہ يا اس معاشرے ميں داخل ہو جہاں قابل مذمت اشياء اور كام پائے جاتے ہوں تا كہ وہ اس شر كى پہچان كرے اور اصلاح كے مقصد سے اس كے عيوب اور نقائص بيان كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اگر وہ دل بہلانے يا پھر برائى كے ليے جائے تو پھر نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جب آپ ان لوگوں كو ديكھيں جو ہمارى آيات ميں عيب جوئى كر رہے ہيں تو ان لوگوں سے كنارہ كش ہو جائيں حتى كہ وہ كسى اور بات ميں لگ جائيں الانعام ( 68 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتا ہے وہ ايسے دستر خوان پر نہ بيٹھے جہاں شراب نوشى كى جا رہى ہو"

جامع ترمذى شريف حديث نمبر ( 2725 ).

تو اللہ تعالى اسے ان لوگوں ميں سے كر دے گا جو عيب جوئى كرنے والوں كے ساتھ بيٹھتے ہيں اور انہيں ايسا كرنے سے منع نہيں كرتے. انتھى

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 368 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب