الحمد للہ.
اس كے متعلق مسجد بنانے اور وقف كرنے والے كى نيت پر منحصر ہے كہ اگر تو اس نے يہ نيچے والى منزل مسجد كا حصہ بنايا ہے تو اسے مسجد كا حكم ديا جائيگا، اور اس ميں حائضہ عورتوں كا داخلہ ممنوع ہوگا.
اور اگر اس كى نيت اسے مسجد ميں شامل نہ كرنے كى تھى، بلكہ وہاں وضوء خانے وغيرہ بنانے كى تھى تو يہ منزل مسجد ميں شمار نہيں ہوگى اور نہ ہى اسے مسجد كا حكم ديا جائيگا، اس بنا پر يہاں حائضہ عورتوں كا داخل ہونا اور بيٹھنا جائز ہو گا.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( اگر تو مذكورہ عمارت مسجد بنائى گئى ہے، اور اوپر اور نيچے والى منزل كے لوگ امام كى آواز سنتے ہيں تو سب كى نماز صحيح ہے، اور حائضہ عورتوں كے ليے نيچے والى منزل ميں نماز كے ليے بنائى گئى جگہ ميں داخل ہوا اور بيٹھنا جائز نہيں؛ كيونكہ وہ مسجد كے تابع ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميں حائضہ اور جنبى شخص كے مسجد حلال نہيں كرتا"
ليكن كوئى چيز لينے كے ليے عورت مسجد سے گزرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ مسجد ميں خون كى گندگى نہ پھيلے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور نہ ہى جنبى الا را گزرنے والا النساء ( 221 )
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو حيض كى حالت ميں مسجد سے چٹائى پكڑانے كا حكم ديا تو عائشہ رضى اللہ عنہا كہنے لگيں: وہ تو حيض كى حالت ميں ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تيرا حيض تيرے ہاتھ ميں تو نہيں "
ليكن اگر مسجد وقف كرنے والے كى نيت نچلى منزل كو مسجد ميں شامل نہ كرنا تھى، بلكہ اسنے اسے سٹور يا پھر سوال ميں بيان كردہ ضروريات كے ليے بنايا تو پھر اسے مسجد كا حكم نہيں ديا جائيگا، اور حائضہ عورت اور جنبى شخص كے ليے وہاں بيٹھنا جائز ہے، اور ليٹرينوں كے علاوہ جو جگہ پاك صاف ہے وہاں نماز ادا كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں، جس طرح دوسرى جگہ جہاں كوئى شرعى مانع نہ ہو نماز ادا كرنا جائز ہے.
ليكن جو شخص وہاں نماز ادا كرتا ہے اگر وہ مقتديوں كو نہيں ديكھ رہا اور نہ ہى امام كو ديكھ رہا ہے تو پھر وہ امام كى اقتدا نہ كرے، كيونكہ علماء كرام كے راجح قول كے مطابق وہ مسجد كے تابع نہيں.
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 10 / 221 ).
واللہ اعلم .