الحمد للہ.
بنیادی طور پر مسجد میں رکھے جانے والے مصاحف کو کسی اور مسجد میں منتقل کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مسجد کے منہدم ہونے کی وجہ سے اس قرآن مجید سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ رہا ہو، یا قرآن مجید کے نسخوں کی تعداد ضرورت سے بہت زیادہ ہو گئی ہو تو انہیں دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز ہے، لیکن پھر بھی انہیں اپنے گھر لے جانا جائز نہیں ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر چھوٹی مسجد ہونے کی وجہ سے وہاں پر قرآن مجید کے نسخوں کی اتنی ضرورت نہ ہو تو ایسی مسجد سے قرآن مجید کے نسخوں کو کسی دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز ہے جہاں پر ان کی ضرورت ہے؛ کیونکہ قرآن کریم کے نسخوں کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ لوگ ان سے مستفید ہوں، یہاں بہتر یہ ہو گا کہ اس مسجد کے امام سے اجازت لے لی جائے؛ کیونکہ امام صاحب کو مسجد کی ضرورت کا علم ہوتا ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى"(20/15)
آپ کے استاد محترم نے قرآن مجید کے نسخوں کو دوسری مسجد میں لے جانے کا کہا ، یہ بات صحیح نہیں تھی۔ ہاں اگر قرآن مجید کے یہ نسخے مسجد کی بجائے حفظ القرآن کی کلاس کے لیے وقف تھے تو پھر یہ نسخے وہیں پر جائیں گے جہاں حفظ کی کلاس ہو گی، یا پھر یہ نسخے مسجد کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو انہیں دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز ہے۔
آپ نے قرآن مجید کا یہ نسخہ اٹھایا اور اپنے گھر لے گئے تو یہ حرام کام ہے، آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ یہ نسخہ پہلی مسجد میں واپس رکھیں۔
جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (16/19) میں ہے کہ:
"کیا مسجد الحرام سے قرآن مجید کا نسخہ تلاوت کے لیے اٹھا کر گھر لے جانا جائز ہے؟
جواب:
قرآن مجید کا نسخہ یا کوئی کتاب جب حرم یا حرم کے علاوہ کسی بھی مخصوص جگہ کے لیے وقف ہوں تو انہیں وہاں سے کسی اور جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ جگہ ویران ہو چکی ہو تو اسی جیسی یا اس سے بھی اچھی جگہ پر منتقل کرنا جائز ہو گا۔" ختم شد
الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز الشیخ عبد اللہ بن غدیان الشیخ عبد اللہ بن قعود
ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات جاننا ضروری ہے کہ مسجد کے لیے وقف کردہ چیزوں کو کسی کے لیے بھی مسجد سے نکالنا جائز نہیں ہے، باہر لے جانے کا مقصد اسے ذاتی طور استعمال کرنا ہی کیوں نہ ہو، اس لیے قرآن مجید کے نسخے کو تلاوت کے لیے گھر لے جانا بھی درست نہیں ہے، اسی طرح مسجد کے لیے وقف کتاب کو گھر لے جا کر پڑھنا بھی جائز نہیں ہے، اسی طرح بجلی کے آلات میں سے کسی آلے کو گھر لے جا کر استعمال کیا جائے یہ بھی جائز نہیں ہے، چنانچہ جو چیز مسجد کے لیے خاص کر دی گئی ہے اسے مسجد سے نکالنا جائز نہیں ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد میں موجود مصاحف چونکہ لوگوں کے لیے وقف ہوتے ہیں جو بھی مسجد میں جائے وہ انہیں پڑھ سکتا ہے، اس لیے کوئی بھی انسان انہیں اٹھا کر گھر لے جائے اور گھر میں بھی پڑھ سکتا ہے، یہ غلط فہمی ہے۔
کیونکہ ممکن ہے کہ آپ قرآن مجید کا نسخہ گھر لے جائیں اور مسجد میں لوگوں کو قرآن مجید کی ضرورت ہو تو آپ کے گھر لے جانے کی وجہ سے لوگوں کو قرآن مجید نہیں ملا، آپ کی وجہ سے وہ محروم رہے ہیں، چاہے قرآن مجید زیادہ بھی ہو تب بھی درست نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ مسجد میں آنے والے لوگوں کی تعداد اتنی ہی زیادہ ہو جائے۔
بہ ہر حال جو چیز بھی مسجد کے لیے خاص کر دی گئی ہے تو اسے کوئی بھی اپنے گھر میں نہیں لے جا سکتا، بلکہ یہ بھی درست نہیں ہے کہ مسجد میں رہتے ہوئے کسی چیز کو اپنے لیے خاص کر لے، یعنی کسی خاص مصحف کو اپنے لیے مختص کر لے اور تلاوت کے بعد اسے ایسی جگہ رکھے جہاں کسی اور کو نظر نہ آئے؛ کیونکہ عوام الناس کے لیے مختص چیزیں عوام کی رسائی میں ہونی چاہییں۔
اور سوال میں جو صورت بیان ہوئی کہ آپ کے دوست نے آپ کو ایک نسخہ دیا جو کہ اس نے مسجد سے اٹھایا تھا، تو آپ پر لازم ہے کہ اس نسخے کو اسی مسجد میں واپس کر دیں جہاں سے آپ کے دوست نے اٹھایا تھا۔" ختم شد
"فتاوى شیخ ابن عثیمین" نور على الدرب " (16/ 2)
واللہ اعلم