الحمد للہ.
اول:
اگر کوئی اسلامی بینک اپنی کچھ رقوم پرائز بانڈز، یا سود پر مبنی ٹریژری بلوں میں لگاتا ہے، یا پھر "منظم تورق" [بینک سے کوئی چیز قسطوں میں خرید کر بینک کو ہی یا کسی اور کو بینک کے ذریعے نقد لیکن کم قیمت میں فروخت کر کے رقم وصول کرنے کے حیلے] میں لگاتا ہے تو ایسے بینک میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ سرمایہ کاری کے معاہدے میں بینک اصل میں کام کرتا ہے اور سرمایہ کاروں کا نمائندہ ہوتا ہے، اس طرح سرمایہ کاروں کو بھی بینک کی طرف سے کیے جانے والے غیر شرعی معاملات کا گناہ ہو گا، چنانچہ اس صورت میں محض حرام منافع سے خلاصی گناہ سے بچنے کے لیے ناکافی اقدام ہے۔
دوم:
سودی منافع جو کہ حرمت کے علم سے قبل آپ نے وصول کیا تھا آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں، چاہے آپ نے انہیں خرچ کر دیا ہے یا ابھی آپ کے پاس باقی ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ
ترجمہ: اللہ تعالی نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام کہا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ سودی لین دین سے رک گیا تو سابقہ سودی مال اسی کا ہے۔[البقرۃ: 275]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں جس موقف پر مکمل شرح صدر ہے کہ جس شخص نے کوئی مال تاویل کرتے ہوئے ، یا لا علمی کی بنا پر اپنے قبضے میں کیا تو یہ بلا شک و شبہ وہ اسی کا ہی ہے، جیسے کہ اس بارے میں کتاب و سنت اور قیاس کے دلائل موجود ہیں۔" ختم شد
"تفسير آيات أشكلت على كثير من العلماء." (2/ 592)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص یہ نہ جانتا ہو کہ فلاں کام حرام ہے، تو اس حرام کام سے لا علمی کی بنا پر جو کچھ بھی اس نے کمایا وہ اسی کا ہے؛ کیونکہ اس نے یہ کام کسی عالم کے فتوے پر غلط اعتماد کرتے ہوئے کیا تھا، لہذا اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں کرے گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ
ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ رک گیا تو ماضی میں حاصل کردہ مال اسی کا ہے۔[البقرۃ: 275] "
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:
"اس آیت کے فوائد میں یہ بھی شامل ہے کہ: جس انسان نے سود کی حرمت کا علم ہونے سے قبل سود وصول کیا ہو تو وہ اس کے لیے حلال ہے، بشرطیکہ آئندہ کے لیے توبہ کرے اور اس غلط کام سے رک جائے۔" ختم شد
" تفسير سورة البقرة " (3/ 377)
سوم:
اس بینک میں سرمایہ کاری فوری طور پر بند کرنا لازم ہے، چاہے سرمایہ کاری اکاؤنٹ میں ہو یا محدود مدت کے سرٹیفکیٹس کی شکل میں ہو، اور چاہے اس پر کچھ نقصان بھی برداشت کرنا پڑے؛ کیونکہ سودی لین دین سے فوری طور پر بچنا ضروری ہے، اور اللہ تعالی کی حکم کی تعمیل بھی لازم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور جو سود باقی ہے وہ وصول نہ کرو اگر تم مومن ہو، اگر تم ایسا نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارا رأس المال ہے، تم کسی پر ظلم نہ کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے گا۔[البقرۃ: 278 - 279]
اسی طرح صحیح مسلم: (1598) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں ہر لعنت فرمائی، اور کہا: (یہ سب کے سب برابر ہیں)"
واللہ اعلم