الحمد للہ.
اگر تو اس عورت نے لڑكى كو پانچ معلوم رضاعت دو برس ہونے سے قبل ( يعنى دودھ پينے كى عمر ميں ) دودھ پلايا ہے تو يہ لڑكى اس كى اور اس كے خاوند جس كا دودھ تھا كى رضاعى لڑكى بن گئى ـ اور وہ آپ كا والد ہے ـ اور اس عورت كى سارى اولاد اور اس خاوند سے يا دوسرے سے وہ اس لڑكى كے رضاعى بہن بھائى بن جائينگے، اور اسى طرح خاوند جو كہ دودھ والا تھا كى سارى اولاد چاہے وہ دودھ پلانے والى عورت سے ہو يا كسى دوسرى بيوى سے وہ بھى اس لڑكى كے رضاعى بہن بھائى بن جائينگے.
لہذا تم اور تمہارے باپ كى كسى بھى بيوى كى اولاد سب اس لڑكى كے رضاعى بہن بھائى ہيں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب عورت كسى بچے كو پانچ معلوم رضاعت يا اس سے زيادہ دو برس كى عمر ميں دودھ پلائے تو دودھ پينے والا بچہ اس كا اور اس كے خاوند كا رضاعى بيٹا بن جائيگا، اور اس عورت اور اس كے خاوند دودھ والے كى سارى اولاد اس دودھ پينے والے بچے كے رضاعى بہن بھائى ہونگے، چاہے وہ دودھ پلانے والى عورت سے ہوں يا دوسرى بيوى سے، اور اس عورت كے بھائى بچے كے رضاعى ماموں ہوئے، اور دودھ والے خاوند كے بھائى بچے كے رضاعى چچا ہوئے، اور عورت كا باپ بچے كا رضاعى نانا، اور خاوند كا باپ بچے كا رضاعى دادا بن گيا، اور اس كى ماں بچے كى رضاعى دادى بن جائيگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا سورۃ النساء ميں محرم عورتوں كے متعلق فرمان ہے:
اور تمہارى مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہے اور تمہارى رضاعى بہنيں النساء ( 23 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت سے وہى كچھ حرام ہو جاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے "
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت صرف دو برس كى عمر ميں ہے "
اور اس ليے بھى كہ صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سےمروى ہے وہ بيان كرتى ہيں:
" قرآن مجيد ميں دس معلوم رضاعت نازل ہوئيں جن سے حرمت ثابت ہوتى تھى، پھر انہيں پانچ معلوم رضاعت كے ساتھ منسوخ كر ديا گيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب فوت ہوئے تو امر يہى تھا "
اسے ان الفاظ ميں ترمذى نےروايت كيا ہے، اور اس كى اصل صحيح مسلم ميں ہے. انتہى
ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 333 ).
اور رضاعت كى تعريف كيا ہے اس كى تفصيل سوال نمبر ( 27280 ) ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .