الحمد للہ.
اول:
يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى حكم دينے اور كسى چيز سے منع كرنے ميں بہت حكيم ہے، وہ بلند و بالا ہے، بندوں كو وہى حكم ديتا ہے جس ميں كوئى حكمت اور مصلحت ہوتى ہے، اور جس سے منع كرتا ہے اس ميں ضرورى كوئى خرابى اور فساد ہوتا ہے، اور احكام و نواہى ميں يہ حكمتيں بعض اوقات مخلوق كے سامنے آ جاتى ہيں اور ظاہر ہو جاتى ہيں، اور بعض اوقات ظاہر نہيں بھى ہوتيں اور ان كے احاطہ علم ميں نہيں آتيں، چاہے اسى معاملہ اور حكم ميں اللہ كى حكمت ہو.
چنانچہ جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر كسى عمل كو حكمت معلوم ہونے كے ساتھ معلق كرنا صحيح نہيں، كہ اس كى حكمت معلوم ہو گى تو عمل كرينگے، اور حكمت معلوم ہو گى تو اس سے ممنوعہ كام پر عمل نہيں كرينگے، بلكہ شرعى حكم كو جتنى جلدى ہو سكے نافذ اور اس پر عمل كرنا چاہيے، چاہے اس كى حكمت ظاہر ہو يا نہ ہو، اگر حكمت كا پتہ چل جائے اور ظاہر ہو جائے تو الحمد للہ، اور اگر ظاہر نہ ہو تو مسلمان كے ليے حكمت سے جہالت حكم شرعى پر عمل كرنے ميں مانع نہ ہو، بلكہ اسے اس شرعى عمل كى تطبيق اور تنفيذ ميں جلدى كرنى چاہيے.
اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كو حقيقتا ماننا اور تسليم كرنا يہى ہے كہ اس پر عمل كيا جائے، اور اسلام يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے سامنے سرتسلم خم كر ديا جائے، اور اللہ كا مطيع و فرمانبردار بنا جائے، اور پھر انسان كا ايسے امور كے ساتھ اعمال كو معلق كرنا جو اسے ہو سكتا ہے مطمئن كر ديں، اور ہو سكتا ہے اسے مطمئن نہ كر سكيں يہ حقيقت ميں اپنى عقل اور اپنى خواہشات كا پيروكار اور مقلد ہے، نا كہ اپنے پروردگار اور مولا عزوجل كا.
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كا معنى يہ نہيں كہ تشريعى احكام كى حكمت اور ا حكام كے پيچھے كيا اسباب ہيں تلاش كرنا ہى ترك كر ديا جائے، يا پھر اس ميں غور و خوض حرام قرار ديا جائے، بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ حكم شرعي پر عمل كرنے كو حكمت كے ظہور سے معلق اور مربوط نہ كيا جائے.
دوم:
دنيا ميں كسى چيز كا حرام اور آخرت ميں مباح ہونے ميں تلازم نہيں ہے، اس سے آخرت كو دنيا پر قياس كرنا صحيح نہيں، كيونكہ ہر ايك كے احكام مختلف ہيں، اور آخرت يا جنت ميں كسى چيز كا مباح ہونے پر قياس كرتے ہوئے دنيا ميں اسے مباح كہنا بھى صحيح نہيں، اگر ايسا كيا جائے تو پھر تو جو اشياء دين ميں حرام ہيں اوران كا علم دينى ضرورت ہے مثلا شراب نوشى، اور چار سے زيادہ عورتيں نكاح ميں ركھنا، اور موسيقى و گانا بجانا وغيرہ دوسرے حرام كام كو بھى مباح كرنا كر ديا جائيگا.
سوال ميں جو اشكال پيش كيا گيا ہے كہ ريشم دنيا ميں حرام ہے حالانكہ جنت ميں مباح ہو گى، يہ اشكال قابل قبول نہيں بلكہ مردود ہے.
سوم:
علماء كرام نے دنيا ميں مردوں كے ليے ريشم حرام ہونے كى حكمت كے متعلق بات كى ہے، ان علماء ميں علامہ ابن قيم رحمہ اللہ بھى شامل ہيں، اس كے متعلق زاد المعاد ميں انہوں نے بہت اچھى كلام كى ہے:
علت اور حكمت ثابت كرنے والے بہت زيادہ ہيں، ان ميں سے كچھ وہ بھى ہيں جنہوں نے اس كا جواب ديا ہے كہ: شريعت نے اسے حرام اس ليے كيا ہے تا كہ نفس اس سے صبر كرے، اور اسے اللہ كے ليے ترك كر دے، تو اسے اس پر اجروثواب حاصل ہو گا.
اور كچھ نے اس كا جواب يہ ديا ہے كہ:
يہ ريشم اصل ميں عورتوں كے ليے پيدا كى گئى ہے جس طرح سونے كے زيورات ہيں، تو مردوں كے ليے اس ليے حرام ہے كہ اس ميں عورتوں سے مشابہت ہوتى ہے.
اور بعض كا كہنا ہے: اس ليے حرام كى گئى ہے كہ يہ فخر و تكبر اور اپنے آپ كو اچھا سمجھنے كا باعث بنتى ہے.
اور كچھ كہتے ہيں: يہ اس ليے حرام كى گئى ہے كہ ريشم جسم كے ساتھ لگنے سے مردانگى كى بجائے عورت پن اور ہيجڑا پن پيدا كرنے كا باعث ہے، اور يہ مردانگى كى ضد ہے، كيونكہ ريشم پہننے سے دل ميں نرمى اور عورتوں كى صفات پيدا ہوتى ہيں، جو كسى پر مخفى نہيں، چاہے وہ لوگوں ميں سب سے زيادہ مردانگى والا ہى كيوں نہ ہو، ريشم كا لباس پہننے سے اس كى مكمل مردانگى چاہے ختم نہ بھى ہو ليكن اس ميں كمى ضرور كريگى، اور جو اسے سمجھنے سے قاصر ہو اور اس كى سمجھ موٹى ہو تو وہ اسے حكمت سے پر شارع كے سپرد ہى كر دے"
ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 80 ).
واللہ اعلم .