جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

کیا دائمی قبض کا شکار مریض روزہ چھوڑ سکتا ہے؟ اسے ادویات اور قبض کشا چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

سوال

مجھے عرصہ 10 ماہ سے سخت قبض کا سامنا ہے، اس کے ساتھ ساتھ پیٹ میں درد بھی رہتا ہے، دن کا اکثر حصہ تکلیف میں گزرتا ہے اور مجھے تکلیف میں کمی کے لیے قبض کشا ادویات کھانی پڑتی ہیں، یہ مرض ممکن ہے مہینوں یا سالوں یا پھر ساری زندگی رہے، تو کیا میں حسب استطاعت روزے رکھ لوں اور بقیہ دنوں کا رمضان کے بعد فدیہ دے دوں؟

جواب کا خلاصہ

1-اگر آپ کو روزے کے دوران سخت مشقت اور تکلیف کا سامنا ہو اور قضائے حاجت کے لیے منہ کے راستے سے ادویات کھانی پڑیں تو آپ کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے، لیکن اگر ادویات مقعد کے راستے طبی شافوں کے ذریعے یا انیما کے ذریعے جسم میں داخل کرنا ممکن ہو تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا، تو ایسی صورت میں منہ کے ذریعے دوا کھانا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ یہ رمضان میں بغیر عذر کے روزہ توڑنے میں شامل ہو گا۔ 2- روزہ چھوڑنے کی صورت میں آپ دیکھیں اگر بیماری سے مہینے بعد شفا یابی ممکن ہے تو پھر جب بھی ممکن ہو آپ بعد میں قضا دیں گے، چاہے قضا دیتے ہوئے روزے الگ الگ رکھیں ؛ اس صورت میں کھانا کھلانا کافی نہ ہو گا۔ لیکن اگر آپ کو کوئی معتمد معالج یہ کہے کہ اس مرض سے شفا یابی ممکن نہیں ہے ، اور اس کے ساتھ روزہ بہت مشکل سے رکھا جائے گا کیونکہ آپ کو دوا کھانے کے لیے روزہ توڑنا ہو گا، تو پھر آپ روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ مزید تفصیل کے لیے مکمل جواب ملاحظہ کریں۔

الحمد للہ.

اول:

وہ کون سا مرض ہے جو روزہ افطار کرنے کا عذر بن سکتا ہے؟

اگر بیماری کے ساتھ تکلیف اور روزے کے لیے واضح مشقت بھی ہو، روزہ نہ رکھنے سے یہ تکلیف مریض سے دور ہو جائے تو یہ ایسا عذر ہے جس سے روزہ افطار کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (183) أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ 
 ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ [183]یہ گنتی کے دن ہیں، جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دیگر ایام میں روزوں کی تعداد پوری کر لے ۔[البقرۃ: 183- 184]

ایسا مرض جو روزہ افطار کرنے کا عذر بن سکتا ہے وہ مرض ہے جس سے روزے دار کو بہت واضح مشقت ہو۔

جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/261) میں کہتے ہیں:
"کوئی عاجز مریض کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس سے شفا یاب ہونے کی امید ہو تو اس پر روزہ رکھنا فرض نہیں ہے ۔۔۔ یہ اس وقت ہے جب اسے روزہ رکھنے کی وجہ سے واضح مشقت کا سامنا کرنا پڑے، اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ مریض کی حالت ایسی ہو کہ وہ روزہ نہ رکھ سکے، بلکہ ہمارے فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ: روزہ افطار کرنے کی شرط یہ ہے کہ: روزے کی وجہ سے اتنی مشقت ہو کہ برداشت کرنا مشکل ہو جائے ۔" ختم شد

ایک اور جگہ پر انہوں نے کہا:
"معمولی مرض کہ جس کی وجہ سے کوئی زیادہ مشقت نہ ہو تو ہمارے ہاں بلا اختلاف روزہ کھولنا جائز نہیں ہے۔" ختم شد
المجموع (6/261)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مریض کی متعدد صورتیں ہیں:
پہلی صورت: روزے کی وجہ سے بیماری پر کوئی اثر نہ ہو، مثلاً: معمولی زکام، سر درد، ڈاڑھ درد وغیرہ، تو ایسی بیماری کی وجہ سے روزہ افطار کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ بعض علمائے کرام روزہ افطار کرنے کی اجازت دیتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورت البقرہ میں آیت 185:  وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا  عام ہے، اور اس میں ہر قسم کی بیماری آتی ہے۔

لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ: مذکورہ آیت میں حکم کسی علت کے ساتھ منسلک ہے، اور علت یہ ہے کہ روزہ افطار کرنا اس کے لیے آسانی کا باعث ہو، تو ہم اس وقت کہیں گے کہ: وہ روزہ افطار کر سکتا ہے، لیکن اگر روزہ افطار کرنے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑے گا، تو ایسی صورت میں اس پر روزہ رکھنا واجب ہے۔
دوسری صورت: مریض کے لیے روزہ رکھنا دشوار ہو، لیکن نقصان نہ ہو تو ایسے شخص کے لیے روزہ رکھنا مکروہ  اور روزہ کھولنا جائز عمل ہے۔

تیسری صورت: مریض کے لیے روزہ رکھنا دشوار بھی ہو اور باعث نقصان بھی ہو، جیسے کہ گردوں اور ذیابیطس وغیرہ کے مرض میں مبتلا افراد ، تو ایسے لوگوں کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے۔" ختم شد
الشرح الممتع (6/ 341)

اس بنا پر، اگر آپ کو روزہ رکھنے کی وجہ سے واضح دشواری کا سامنا ہو، اور آپ کو قبض کشائی کے لیے منہ کے ذریعہ دوا بھی کھانا پڑے تو آپ کے لیے روزہ کھولنا جائز ہے۔

لیکن اگر قبض کشا دوا مقعد کے راستے انیما یا شافوں کے ذریعے داخل کرنا ممکن ہو تو پھر اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا، نیز اس صورت میں منہ کے ذریعے دوا کھانا بھی جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ یہاں رمضان کا روزہ بلا عذر توڑا جائے گا۔

اسلامی فقہ اکیڈمی کی روزہ توڑنے والی اشیا کے متعلق قراردادوں میں ہے کہ:
"اول: درج ذیل امور روزہ توڑنے والے امور میں شمار نہیں کیے جائیں گے ۔۔۔
8- جلد، پٹھوں، اور رگوں میں بطور علاج لگائے جانے والے ٹیکے ، لیکن اس میں ایسے محلول اور ٹیکے شامل نہیں ہیں جو بطورِ غذا استعمال ہوں۔۔۔

11- ایسے مرہم ، تیل اور جلدی پٹیاں جن پر کیمیائی مادہ یا دوائی لگائی جاتی ہے اور وہ جسم میں جلد کے مساموں کے راستے جذب ہو جاتے ہیں۔ " ختم شد

دوم:

رمضان میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا

روزہ چھوڑنے کی صورت میں دیکھا جائے کہ اگر بیماری سے مہینوں بعد بھی شفا یابی ممکن ہے تو پھر جب بھی ممکن ہو آپ بعد میں قضا دیں گے، چاہے قضا دیتے ہوئے روزے الگ الگ رکھیں ؛ اس صورت میں کھانا کھلانا کافی نہ ہو گا۔

لیکن اگر آپ کو کوئی معتمد معالج یہ کہے کہ اس مرض سے شفا یابی ممکن نہیں ہے ، اور اس کے ساتھ روزہ بہت دشواری سے رکھا جائے گا کیونکہ آپ کو دوا کھانے کے لیے روزہ توڑنا ہو گا، تو پھر آپ روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب