منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

وتروں کی ادائیگی میں سستی کرنے کا حکم

سوال

کیا وتر چھوڑنا جائز ہے؟ اور وتر چھوڑنے پر کیا احکام مرتب ہوتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جمہور علمائےکرام کے ہاں  نماز وتر سنت مؤکدہ ہے، کچھ فقہائے کرام نے اسے واجب بھی کہا ہے۔

وتروں کے واجب نہ ہونے کی دلیل صحیح بخاری: (1891)  اور مسلم : (11)  میں طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور فرمایا: (اللہ کے رسول ! مجھ پر اللہ نے کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  پانچ نمازیں ، الا کہ تم زائد طور پر نفل ادا کرو) صحیح مسلم کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (دن اور رات میں پانچ نمازیں  [فرض ہیں] تو اس شخص نے کہا: کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی نمازیں فرض ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، الا کہ آپ نفل ادا کریں)

نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ:
"اس حدیث میں دلیل ہے کہ وتر واجب نہیں ہیں" ختم شد

اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں :
"اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ  دن اور رات میں اس کے علاوہ کوئی نماز فرض نہیں ہے، یہ بات ان لوگوں کے موقف کے خلاف ہے جو وتروں یا فجر کی سنتوں کو واجب قرار دیتے ہیں" ختم شد

تاہم اس موقف کے با وجود  نماز وتر موکد ترین سنتوں میں شامل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں وتر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

چنانچہ صحیح مسلم (754) میں ہے کہ ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( صبح ہونے سے پہلے  وتر پڑھ لو)

اور اسی طرح ابو داود (1416) میں روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اہل قرآن! وتر پڑھا کرو؛ بیشک اللہ تعالی وتر  ہے اور  وتر  سے محبت  فرماتا ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اس لیے سفر ہو یا قیام ہر حالت میں وتروں کو ادا کرنے کی کوشش  کرنی چاہیے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیا کرتے تھے؛ چنانچہ بخاری: (1000) اور مسلم: (700) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پہ نماز ادا کرتے ، چاہے سواری کا رخ کہیں بھی ہوتا ، آپ اشارے سے نماز ادا کرتے، آپ فرائض کے علاوہ رات کی نماز  اس طرح سے ادا کرلیتے تھے  اور وتر بھی اپنی سواری پہ ادا کرتے تھے)

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "وتر واجب نہیں ہے، اسی کے امام مالک اور شافعی قائل ہیں، جبکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ وتر واجب ہیں" انہوں نے یہ بھی کہا کہ: "امام احمد کہتے ہیں کہ: جو شخص جان بوجھ کر وتر چھوڑ دے تو وہ برا آدمی ہے، اس کی گواہی قبول نہیں کرنی چاہیے" امام احمد  نے یہ کہہ کر وتروں کی ادائیگی کی تاکید بیان کی ہے کیونکہ وتروں کی ادائیگی کے بارے میں احادیث میں حکم  اور ترغیب آئی ہے۔" ختم شد، ماخوذ از "المغنی" (1/827)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:

 کیا نماز وتر واجب ہے، اور کیا جو اس نماز کو ایک دن پڑھے اور دوسرے دن چھوڑ دے، وہ گناہگار ہو گا؟

ج 2: نماز وتر سنت مؤکدہ ہے، مومن کو اس کی پابندی کرنی چاہیے، مگر جو کبھی پڑھے اور کبھی نہ پڑھے اس کی گرفت نہیں ہو گی، لیکن نماز وتر کو پابندی سے ادا کرنے کی نصیحت کی جائے گی ، پھر اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ اگر وتر رہ جائے تو اس کے بدلے دن کے وقت جفت تعداد میں وتر پڑھ لے، کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم ایسے کیا کرتے تھے، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند یا بیماری کی وجہ سے رات کی نفل نماز ادا نہ کر پاتے، تو آپ دن میں بارہ رکعتیں ادا کر لیتے تھے۔ اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم رات میں عام طور پہ 11 رکعتیں ادا فرمایا کرتے تھے۔

ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت الگ پڑھتے، پھر اگر کبھی رات کو نیند یا بیماری کی وجہ سے رات کی نماز رہ جاتی تو ان کے بدلے دن کے وقت 12 رکعتیں پڑھ لیتے، جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے، لہذا اگر کسی مسلمان کی عادت رات کو 5 رکعتیں ادا کرنے کی تھی اور کبھی رات کو نیند یا بیماری کی وجہ سے رہ جائیں، تو ان کے بدلے دن کے وقت دو دو کر کے 6 رکعتیں پڑھ لیا کرے، اسی طرح اگر اس کی عادت 3 رکعتوں کی ہے تو دن کو 4 رکعتیں دو بار سلام کے ساتھ، اور اگر 7 کی ہے تو دن کو 8 رکعتیں ادا کر لیا کرے، جن میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (7/172)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب