الحمد للہ.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے ايمان اور ہدايت ميں زيادتى فرمائے، اور ہميں اور آپ كو اپنے دين پر ثابت قدم ركھے.
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى بہنوں كو پردہ كرنے كى نصيحت كرتے رہيں، اور اپنے والدين كو بھى اللہ تعالى كے احكام كا التزام كرنے كى نصيحت كرتے رہيں، ليكن يہ سب بڑى نرمى اور شفقت كے ساتھ ہو، اور اس سلسلہ ميں آپ كچھ كيسٹ اور كتابوں وغيرہ سے معاونت حاصل كريں جن ميں پردہ كے حكم كى وضاحت كى گئى ہو، جس كے متعلق اللہ تعالى نے درج ذيل آيت ميں حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 59 ).
امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
( جب عرب عورتوں كى عادت ميں چھچھورا پن شامل تھا، اور وہ لونڈيوں كى طرح اپنے چہرے ننگا ركھا كرتى تھيں، جو كہ مردوں كو ان عورتوں كى جانب ديكھنے كا سبب تھا، اور ان كے متعلق سوچ پيدا ہوتى تھى، تو اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو حكم ديا كہ وہ عورتوں كو حكم ديں كہ جب وہ اپنى ضروريات كے ليے باہر نكليں تو اپنے اوپر اوڑھنياں اور چادريں اوڑھ ليا كريں.
اور ليٹرين اور بيت الخلا بنائے جانے سے قبل عورتيں صحراء اور كھلى جگہ ميں قضائے حاجت كرنے كے ليے جايا كرتى تھيں، تو اس طرح پردہ كرنے سے آزاد عورتوں اور لونڈيوں كے درميان فرق واضح ہو جائے، پردہ كى بنا پر آزاد عورتيں پہچانى جائيں، تو كنوارے اور نوجوانو لڑكوں كى چھيڑ چھاڑ سے محفوظ رہيں.
پردہ نازل ہونے سے قبل مومنوں كى كوئى عورت كسى ضرورت كے ليے باہر نكلتى تو كسى فاجر كى چھيڑ چھاڑ كا شكار ہو جاتى وہ يہ خيال كرتا كہ يہ لونڈى ہے، تو جب وہ عورت اسے جھڑكتى تو وہ چلا جاتا، چنانچہ صحابہ كرام نے اس كى شكايت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كى تو اس كے باعث يہ آيت نازل ہوئى، حسن وغيرہ نے بھى اس جيسى كلام كہى ہے ) انتہى.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 11774 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور بعض لوگ جو يہ ہانكتے پھرتے ہيں كہ نوجوان لڑكيوں كے ليے پردہ يا عبايا تو شادى كے بعد لازم ہے پہلے نہيں، يا پھر تعليم مكمل كرنے كے بعد يا اس طرح كى اور باتيں كرتے ہيں، اس كى كوئى اصل نہيں ہے، بلكہ ہر بالغ لڑكى كو اس شرعى حكم پر عمل كرنا لازمى ہے، چاہے اس كى عمر بارہ برس ہو يا اٹھارہ برس ليكن شرط بلوغت كى ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 20475 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، كيونكہ يہ بہت اہم ہے.
ماں اور باپ كو بھى يہ علم ميں ركھنا چاہيے كہ انہيں اپنى اولاد كے متعلق اللہ تعالى كو جواب دينا ہے، كيونكہ يہ ا نكى رعايا ميں شامل ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو جہنم كى اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر ايسے سخت قسم كے فرشتے مقرر ہيں، جو اللہ كے حكم نافرمانى نہيں كرتے، اور جو انہيں حكم ديا جاتا ہے وہ اس پر عمل كرتے ہيں التحريم ( 6 ).
اور جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
" تم سب ذمہ دار ہو، اور تم سب سے اس كى رعايا كے بارہ ميں باز پرس ہو گى، حكمران ذمہ دار ہے، اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا، اور آدمى اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 893 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
" بلا شبہ اللہ تعالى ہر ذمہ دار كو اس كى رعايا كے متعلق سوال كريگا، آيا اس نے ا نكى حفاظت كى يا كہ انہيں ضائع كر ديا ؟ حتى كہ آدمى كو اس كے اہل و عيال كے بارہ ميں بھى سوال كيا جائيگا "
اسے ابن حبان نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے غايۃ المرام حديث نمبر ( 271 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .