اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بسا اوقات شرعی دم کے اثرات کیوں رونما نہیں ہوتے؟

سوال

غیر مسلم شخص کا کسی مسلمان کو شرعی دم کرنا جائز ہے، مسلمان کو اس سے شفا بھی مل جاتی ہے، ایک شخص خون میں موجود کسی زہریلے مادے کا دم کرتا ہے جس کی بدولت معدے کی صفائی، یا خون کی تبدیلی یا خون منتقل کیے بغیر خون سے وہ زہریلا مادہ ختم ہو جاتا ہے اور مریض بالکل صحت یاب ہو جاتا ہے، اسی طرح جادو، آسیب، جنات اور نظر بد وغیرہ کے مریض بھی بالکل صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایک مسلمان دم کرتا ہے اور مرض بڑھتا چلا جاتا ہے، یا مریض کو یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ وہ لا علاج مریض ہے! تو ایسے میں دم کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کا کیا معیار ہے؟ کس حد تک دم کے ذریعے بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے؟

الحمد للہ.

اول:

مسنون اذکار اور آیات کے ذریعے دم کرنا سنت ہے

دم کرنا دعا کی ایک قسم ہے، اسی لیے آیات اور شرعی اذکار کے ذریعے دم کرنا شرعی عمل ہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآنی آیات اور معروف اذکار کے ذریعے دم کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ یہ سنت ہے ۔۔۔ اہل علم نے آیات قرآنیہ اور اذکار الہیہ کے ذریعے دم کرنے کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے، جیسے کہ علامہ مازری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر دم قرآنی یا ذکر الہی پر مشتمل ہو تو وہ سب کے سب جائز ہیں، ممنوعہ دم وہی ہے جو عجمی زبان میں ہو یا ایسی زبان میں ہو جس کا معنی اور مفہوم واضح نہ ہو کیونکہ ممکن ہے کہ اس میں کفریہ الفاظ ہوں۔" ختم شد
ماخوذ از شرح صحیح مسلم: (14 / 169)

تو دعا بھی اللہ تعالی کی طرف سے بیماری سے حصول شفا کے لیے بنائے گئے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔

کیا دم کے ذریعے شفا یابی لازمی امر ہے؟

یہ بات سب کے ہاں واضح ہے کہ انسان کسی چیز کے اسباب اپنائے تو یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ چیز حاصل ہو کر ہی رہے گی، کبھی مطلوبہ نتائج اس لیے حاصل نہیں ہوتے کہ ان اسباب کی تمام شرائط پوری نہیں ہوتیں، مثلاً: دم کرنے والا شخص غافل ہو، دم کرتے ہوئے مخلص نہ ہو، یا یہ بھی ممکن ہے کہ جس پر دم کیا جا رہا ہے اسی کا دم پر یقین نہیں ہے مثلاً: اس کا نظریہ ہی یہ ہو کہ دم کی وجہ سے اسے فائدہ نہیں ہو گا۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآن کریم تمام دنیاوی اور اخروی، قلبی اور جسمانی بیماریوں کے لیے مکمل شفا ہے، لیکن ہر ایک کو قرآن کریم کے ذریعے شفا یابی کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا، اور نہ ہی ہر ایک شخص کو اس میں کامیابی دی جاتی ہے۔ البتہ اگر مریض قرآن کریم کے ذریعے اچھے طریقے سے علاج کرے، مکمل صداقت اور ایمان، بھر پور یقین اور پختہ عقیدے کے ساتھ قرآن کے ذریعے علاج کرے اور علاج کی تمام تر شرائط پوری ہوں تو کوئی بھی بیماری قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔" ختم شد
"زاد المعاد" (4 / 322)

لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی حکمت کی بنا پر اللہ تعالی شفا میں تاخیر فرما دیتا ہے، یا بالکل ہی روک دیتا ہے۔

جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسی کوئی بھی دعا جس میں زیادتی نہ پائی جائے تو مطلوبہ چیز یا اس کی مثل ضرور حاصل ہوتی ہے۔ مطلوبہ کا مثل حاصل ہونا قبولیت کی انتہائی اعلی صورت ہے؛ کیونکہ بسا اوقات مطلوبہ چیز ناممکن ہوتی ہے، یا پھر دعا مانگنے والے یا کسی اور فرد کے لیے وہ نقصان دہ ہوتی ہے؛ اس نقصان کے متعلق دعا مانگنے والے کو کچھ بھی علم نہیں ہوتا، اسے نہیں معلوم کہ مطلوبہ چیز اس کے لیے کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالی قریب اور دعائیں قبول کرنے والا ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر ماں کے اپنے بچوں پر رحم کرنے سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے۔ رحم و کرم کرنے والی ذات وہی ہے جس سے کوئی مخصوص چیز طلب کی جائے اور اسے علم ہو کہ یہ چیز اس کے لیے مناسب نہیں ہے تو وہ اس جیسی کوئی اور چیز عطا فرما دے، بالکل ایسے ہی جس طرح والد اپنی اولاد کے ساتھ کرتا ہے کہ جب اولاد غیر مناسب چیز کا مطالبہ کرے تو والد اپنے مال میں سے اس کی مثل دے دیتا ہے۔ اللہ تعالی کے لیے اعلی مثالیں ہیں۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (14/368)

ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ جہالت کی بات ہے کہ انسان کو تکلیف کا مقصد ہی معلوم نہ ہو، کیونکہ تکلیف ان مقاصد کے بالکل متضاد ہوتی ہے، اس لیے عقل مند شخص ذاتی مقاصد کے متضاد سے بھی مانوسیت رکھے، چنانچہ اگر انسان اللہ تعالی سے کسی خاص مقصد کے لیے دعا مانگے تو اگر اللہ تعالی اسے وہی عطا فرما دے جو وہ مانگ رہا تھا تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرے، اور اگر اسے اپنی مطلوبہ چیز حاصل نہ ہو تو دعا میں ضد نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ دنیا اپنے مقاصد کو پورا کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ دل ہی دل میں یہ بھی کہے: ممکن ہے جس چیز کو تم برا سمجھو وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔

پھر ا س سے بھی بڑھ کر جہالت یہ ہے کہ انسان اپنے مقاصد پورے نہ ہونے کی وجہ سے اندر ہی اندر اپنے آپ کو کاٹنے لگے اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر اعتراض کرے، بسا اوقات یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ: میرا مقصد پورا ہونے سے کسی کو نقصان تو نہیں ہونا تھا، میری دعا کو قبول نہیں کیا گیا!؟
یہ سب باتیں انسان کے جاہل اور ایمان کمزور ہونے کی علامت ہیں، اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کی حکمت کے سپرد نہیں کیا۔" ختم شد
صید الخاطر: (625– 626)

بسا اوقات اللہ تعالی کسی کافر کے دم کو بھی قبول فرماتا ہے اور اس سے شفا بھی دے دیتا ہے جو کہ اسی کافر کے خلاف حجت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی مصیبت کے وقت میں کافروں کی دعائیں قبول فرما لیتا ہے تا کہ ان کے خلاف حجت مزید مضبوط ہو جائے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ * ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ * لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
ترجمہ: تمہیں جو بھی نعمت ملی ہوئی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو، پھر جب تم سے تکلیف دور کر دیتا ہے تو تم میں سے ہی ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے؛ تا کہ وہ ہماری عنایتوں کی ناشکری کریں۔ تم مزے اٹھا لو عنقریب تم جان لو گے۔[النحل: 53 - 55]

کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالی حکمت کی وجہ سے کسی مومن کو دیر سے شفا یاب فرمائے، مثلاً : بیماری کی وجہ سے زیادہ اجر و ثواب دینا ہو، اور صبر کرنے پر بدلہ زیادہ دینا ہو، یا اسی طرح کی کوئی اور حکمت بھی ہو سکتی ہے۔

تو خلاصہ یہ ہے کہ: دم کا نتیجہ اللہ تعالی کی مشیئت کے تحت ہوتا ہے وہی ذات نہایت مہربان ہے، وہ حکمت والی ہے اور جاننے والی ہے۔

دوم:
دم کے معیاری ہونے کا ضابطہ وہی ہے جو دعا اور ذکر کے معیاری ہونے کا ہے، چنانچہ دم کے لیے صرف یہی شرط لگائی جاتی ہے کہ دم کرنے والا مسلمان، مخلص، صادق اور دم کے لیے شرعی الفاظ استعمال کرنے والا ہو۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (7874 )، (13506 ) اور (36902 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب