جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

بینک کی جانب سے بیرون ملک رقم منتقل کرنے پر مکمل رقم کا 2 فیصد اضافی دینے کا حکم

سوال

میرا تعلق بنگلادیش سے ہے، میرا ایک بھائی قطر میں کام کرتا ہے، جب وہ وہاں سے رقوم بنگلادیش ارسال کرتا ہے تو "Money Gram" سروس کی جانب سے فوری رقوم میرے ملک منتقل کر دی جاتی ہیں، اور ہر سو ریال کے عوض 2 ریال اضافی دیے جاتے ہیں، طریقہ صرف یہ ہے کہ میرے بھائی کو وصول کنندہ کا نام لے کر اسے ایک مخصوص کوڈ بتلایا جاتا ہے جسے لے کر میں اپنے ملک میں متعلقہ بینک سے رقم وصول کر لیتا ہوں، سوال یہ ہے کہ 2 فیصد اضافی رقم واپس لینے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمیں آپ کے ذکر کردہ معاملے کا علم نہیں ہے، عمومی طور پر بینکوں کی جانب سے رقوم کی منتقلی پر کٹوتی کی جاتی ہے نہ کہ واپس کریں، تاہم ظاہر یہی ہے کہ جب تک واپس دی جانے والی رقم کسی چیز سے مشروط نہیں ، اور ساری رقم نکالنے پر ساتھ ہی دے دی جاتی ہے ، نیز فوری رقوم کی منتقلی کی صورت میں مخصوص رقم جمع رکھنے کی بھی شرط نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

رقوم منتقل کرنے والے فرد اور بینک کے درمیان اجارہ کا معاہدہ ہوتا ہے۔

عبد الکریم بن محمد السماعیل کہتے ہیں:
"بینک اور اس کی خدمات استعمال کرنے والے کے درمیان اجارہ کی بنیاد پر معاہدہ ہوتا ہے، صارف بینک کے ساتھ اجارہ کا معاہدہ کرتا ہے تا کہ صارف حوالہ کی قیمت حاصل کرے اور رقم بینک کو دے، دوسری طرف بینک حوالہ کی قیمت دیتے ہوئے اپنی اجرت کا تقاضا کرتا ہے۔" ختم شد
"العمولات المصرفية" صفحہ: 262

خدمات کرائے پر حاصل کرنے والا تحفہ قبول کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اور اگر فرض کریں کہ بینک کے پاس موجود رقم صارف کی جانب سے قرض ہے -یہ محض فرضی صورت ہے، وگرنہ ہم اس کے قائل نہیں ہیں- تو بینک کی طرف سے ملنے والا تحفہ یا اضافی رقم غیر مشروط ہے اور غیر مشروط تحفے میں کوئی حرج نہیں ، منع اس وقت ہو گا جب یہ اضافہ مشروط ہو یا قرض کے دوران ہو۔

اس بارے میں بنیادی دلیل سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی آدمی سے ایک مخصوص عمر کا اونٹ ادھار لیا، پھر جب آپ کے پاس صدقہ کے اونٹ آئے تو ابو رافع کو حکم دیا کہ اس آدمی کا اونٹ واپس کر دے، تو ابو رافع نے کہا: اس سے بڑی عمر کا اونٹ دستیاب ہے! تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ بڑی عمر والا اونٹ ہی دے دو؛ کیونکہ قرض کی واپسی اچھے انداز سے کرنے والے اچھے لوگ ہوتے ہیں۔" مسلم: (1600)

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (4/242) میں کہتے ہیں:
"اگر بغیر کسی شرط کے قرض دیا، لیکن مقروض شخص نے قرضہ واپس کرتے ہوئے باہمی رضا مندی سے مطلوبہ صفات یا مقدار سے اچھا مال واپس لوٹایا، یا اس سے کم تر واپس کیا تو یہ جائز ہے۔" ختم شد

تو خلاصہ یہ ہوا کہ:
اس تحفے یا گفٹ کو وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن اگر بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھی جاتی ہے تو پھر اس تحفے کو قبول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اکاؤنٹ میں رقم رکھنا قرض شمار ہو گا، اور قرض پر قرض کی مدت کے دوران تحفہ لینا جائز نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (106418 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب