الحمد للہ.
اعتکاف کرنے والے کا مسجدسے نکلنا صحیح نہیں کیونکہ مسجد سے خروج کی وجہ سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، کیونکہ مسجدمیں اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے ٹھرنے کا نام ہی اعتکاف ہے ۔
لیکن جب کوئي ضرورت ہوتو مسجد سے نکلا جاسکتا ہے مثلا قضائے حاجت ، وضوء ، غسل ، اوراگرکوئي کھانا لانے والا نہ ہوتو کھانے لانے کے لیے نکلنا جائز ہے اوراسی طرح دوسرے امور جن کے بغیر کوئي چارہ نہیں اوروہ مسجد میں سرانجام نہیں دیے جاسکتے ۔
امام بخاری اور امام مسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ :
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو گھرمیں قضائے حاجت کے بغیر داخل نہيں ہوتے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2092 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 297 )
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی المغنی میں کہتے ہیں :
حاجۃ الانسان سے بول براز مراد ہے اوریہ الفاظ ان دونوں سے کنایۃ بولے گئے ہیں ، کیونکہ ہر انسان قضائے حاجت کا محتاج ہے ، اوراسی کے معنی میں کھانا پینا بھی آتا ہے کہ اگر کھانا لانے والا کوئي نہ ہو تو وہ مسجدسے نکل کر کھانا لاسکتا ہے ۔
اورہر وہ چيز جس کے بغیر کوئي چارہ نہ ہو اس کے لیے بھی مسجد سے نکلا جاسکتا ہے ، اس سے اعتکاف فاسد نہيں ہوگا اورجب تک وہ اس میں طویل عرصہ صرف نہيں کرتا اعتکاف صحیح ہے ۔ ا ھـ
اورملازمت یا کام پر جانے کے لیے مسجد سے نکلنا اعتکاف کے منافی ہے اس سے اعتکاف صحیح نہیں رہتا ۔
مستقل فتوی کمیٹی اللجنۃ الدائمۃ سے مندجہ ذیل سوال کیا گيا :
کیا اعتکاف کرنے والے کے لیے مریض کی عیادت کے لیے جانا یا دعوت قبول کرکے مسجد سے نکلنا یا گھرکی ضروریات پوری کرنا یا جنازہ کے ساتھ جانا یا کام پر جانا جائز ہے ؟
تولجنۃ کا جواب تھا :
اعتکاف کرنے والے کےلیے سنت یہ ہے کہ وہ دوران اعتکاف نہ تو کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے اورنہ ہی کسی کی دعوت کھانے مسجد سے باہر جائے ، اور نہ ہی اپنی گھریلوضروریات پوری کرنے کے لیے مسجدسے نکلے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے اوراسی طرح ڈیوٹی پرجانےکےلیے مسجد سے باہر نہ نکلے کیونکہ حدیث میں ہے کہ :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے ، اورنہ عورت کو چھوئے اورنہ ہی اس سے مباشرت کرے ، اور نہ ہی کسی کام کے لیے نکلے ، لیکن جس کام کے بغیر گزارہ نہ ہو وہ کرسکتا ہے ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2473 ) ۔ا ھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 410 )
واللہ اعلم .