الحمد للہ.
اكثر اہل علم كا مسلك ہے كہ حاملہ عورت كو حيض نہيں آتا، امام ابو حنيفہ، اور امام احمد رحمہما اللہ مسلك يہى ہے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 443 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے بھى يہى قول اختيار كريا ہے.
ليكن كچھ دوسرے علماء كہتے ہيں كہ حاملہ عورت كو بھى حيض آ سكتا ہے، امام مالك، اور امام شافعى رحمہما اللہ كا مسلك يہى ہے.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 411 - 414 ).
محمد ابن ابراہيم اور ابن عثيمين رحمہما اللہ نے يہ قول اختيار تو كيا ہے ليكن يہ شرط ركھى ہے كہ: خارج ہونے والا خون حيض كے اوقات اور حيض كے خون كى طرح كا ہو.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 23400 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.
دونوں قولوں ميں كسى بھى قول پر عمل كرتے ہوئے بھى آپ كى بيوى سے خارج ہونے والا مادہ حيض شمار نہيں ہوتا، كيونكہ يہ نہ تو حيض كے خون كى طرح ہے، اور نہ ہى حيض كے اوقات ميں ہے.
اس طرح آپ كى بيوى پاك صاف اور طاہر ہے وہ نماز بھى ادا كرےگى اور روزہ بھى ركھےگى، اور باقى پاك صاف عورتوں والے سب اعمال سرانجام دے گى.
واللہ اعلم .