الحمد للہ.
اول:
شرعی علوم کے مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے کا حکم
شرعی علوم کی ترویج کے لیے منعقد کیے جانے والے دوروں میں انعامات وصول کرنا جائز ہے، اس بارے میں مکمل تفصیلات پہلے سوال نمبر: (138652) کے جواب میں بیان کی جا چکی ہیں۔
دوم:
حصول علم کے لیے نیت صاف ہونی چاہیے
ان مقابلوں میں شریک ہوتے وقت مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نیت صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے خالص ہونی چاہیے، اس لیے شرعی علوم یاد کرنا یا ان کا مطالعہ حصولِ انعام کے لیے نہ ہو، بلکہ اصل مقصد حصولِ علم اور اطاعتِ الہی ہونا چاہیے، اگرچہ انعام وغیرہ خود بہ خود اس کے تحت مل جائے گا، ان انعامات کی وجہ سے طلبہ کرام کو مہمیز تو ملتی ہے لیکن یہ بنیادی اور اساسی ہدف نہیں ہونا چاہیے۔
حصولِ دنیا کے لیے شرعی علوم سیکھنے والے شخص کے بارے میں شدید وعید نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے وارد ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: (جو شخص ایسا علم حاصل کرے جو کہ صرف رضائے الہی کے لیے حاصل کیا جاتا ہے، وہ اسے صرف اس لیے سیکھتا ہے کہ اس سے دنیا حاصل کرے؛ تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا۔) اس حدیث کو ابو داود: (3664)، ابن ماجہ: (252) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی-دوسرا ایڈیشن -: (3/108) میں ہے:
"قرآن کریم کے حفاظ کو ترغیب دلانے کے لیے نقدی انعامات دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، ساتھ میں حفاظ کو قرآن کریم حفظ کرنے کے لیے للہیت اور اخلاص کی بھی دعوت دی جائے، اور یہ بھی کہ انعامات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ، قرآن کریم حفظ کرنے کا مقصد انعام نہ ہو۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے، اللہ تعالی رحمت و سلامتی نازل فرمائے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر آپ کی آل اور صحابہ کرام پر۔
الشیخ عبد اللہ بن غدیان الشیخ عبد الرزاق عفیفی الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز"
الشیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
انعامات حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے مقابلہ جات میں حصہ لینے کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"حفظ قرآن کریم اور شرعی علوم کی تعلیم کے لیے مقابلہ جات منعقد کروانا، اور ان کاموں کے لیے تعاون کرنا یقینی طور پر اہل علم کے ہاں جائز ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہ نے اسے جہاد پر قیاس کرتے ہوئے جائز قرار دیا ہے۔
لیکن نیت انعام نہیں بلکہ حصولِ علم اور قرآن کریم کو یاد کرنا ہو۔
لیکن اگر مقصد اور ہدف انعام کا حصول ہو تو یہ یقیناً شرعی علم کے ذریعے دولت اور دنیا حاصل کرنا ہو گا، حالانکہ شرعی علم کے ذریعے صرف رضائے الہی مقصود ہونی چاہیے، اس حوالے سے بڑی شدید وعید وارد ہوئی ہے۔" ختم شد
ماخوذ از ویب سائٹ الشیخ عبد الکریم الخضیر
تو یہ مسئلہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہاں کسی کی طرف سے اجرت کے عوض حج بدل کرنے جیسا ہے؛ آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: حج بدل میں اپنے بھائی کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کی نیت ہونی چاہیے، اور یہ کہ مناسک میں حاضر ہو کر حج کے ارکان میں شریک ہونا مقصد ہو، اور اجرت اس مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہو، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مال ترجیحی بنیادوں پر مقصود ہو، اور حج کو کمانے کا ذریعہ بنا لے۔
جیسے کہ "الاختيارات" (صفحہ: 223) میں آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مستحب عمل یہ ہے کہ حج بدل کرنے والا اجرت اس لیے لے کہ وہ حج کر سکے، نہ کہ حج اس لیے کرے کہ اجرت وصول کر سکے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص میت کو اس فریضے سے عہدہ بر آ کرنا چاہے، یا مشاعر مقدسہ میں حاضر ہو سکے تو وہ حج کرنے کے لیے اجرت لے۔
اس عمل کی مثال ہر ایسے معاوضے کی جو کسی بھی نیک کام پر لیا جائے؛ اس لیے جس کا ہدف دین ہے اور دنیا اس دینی ہدف کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور جس کا ہدف دنیا ہے اور اس ہدف کو پانے کے لیے دین کو ذریعہ بناتا ہے ان دونوں میں فرق ہے۔ تو اس مؤخر الذکر شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔" ختم شد
ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنی نیت درست کریں؛ کیونکہ حصولِ علم افضل ترین اطاعت اور عبادت ہے، نیت درست ہونے کے بعد آپ اس مقابلے میں حصہ لے سکتی ہیں۔
اور اگر آپ اپنی نیت کو حصولِ مال سے بچا نہ پائیں تو پھر آپ کے لیے اس مقابلے میں خیر نہیں ہے۔
واللہ اعلم