الحمد للہ.
كسى بھى طريقہ اور كسى بھى طرح سود ميں معاونت كرنى جائز نہيں، چاہے وہ لكھ كر ہو يا گواہى دے كر، يا پھر پہريدار بن كر يا پروگرامر بن كر، يا آلات كو مرمت كر كے، يا اس كے علاوہ معاونت كى جتنى بھى صورتيں ہيں ان ميں كام كرنا جائز نہيں.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالى بہت سخت سزا والا ہے المائدۃ ( 2 ).
لھذا اگر آپ اس سے عليحدہ رہيں تو آپ كا كام مباح اور جائز ہو گا، وگرنہ آپ كوئى اور مباح كام تلاش كرليں، اور يہ يقين ركھيں كہ روزى اللہ تعالى كے پاس ہے، اور اللہ تعالى كى اطاعت وفرمانبردارى كر كے روزى حاصل كى جاسكتى ہے.
جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق وہاں سے عطا كرتا ہے جہاں سے اس كا گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے كافى ہو جاتا ہے، بلا شبہ اللہ تعالى اپنا حكم پورا كرنے والا ہے، اللہ تعالى نے ہر چيز كے ليے اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).
اور يہ بات تو معلوم ہى ہے كہ بہت سارى كمپنياں سودى لين دين كرتى ہيں، اور جس شخص نے آپ جيسا كوئى خاص ہنر سيكھ ركھا ہو اسے مباح اور جائز كام تلاش كرنے ميں بعض مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا ہے، ليكن جو شخص اتنے عظيم گناہ جس كے مرتكبين كے خلاف اللہ تعالى نے اعلان جنگ كر ركھا ہے كو اٹھانے والے شخص كے ساتھ اس كا مقابلہ اور موازنہ نہيں كيا جا سكتا.
لھذا آپ اللہ تعالى سے ڈريں اور اس كا تقوى اختيار كريں، اور اس كى سزا سے بچتے ہوئے اپنا كھانا پينا اور روزى پاكيزہ بنائيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر وہ جسم جو حرام پر پلے اس كے ليے آگ زيادہ بہتر اور اولى ہے"
اسے طبرانى اور ابو نعيم نے الحليۃ ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4519 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .