الحمد للہ.
مساجد ميں نماز باجماعت ادا كرنا سب سے بڑا اور ظاہرى اسلامى شعار ہے، اور يہ ہر بالغ اور استطاعت و قدرت ركھنے والے اوراذان سننے والے مرد پر واجب ہے، اس كے بہت دلائل ہيں، جن ميں درج ذيل فرامين نبوى بھى ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اذان سنى اور ( نماز كے ليے ) نہ آيا تو اس كى بغير عذر كے نماز ہى نہيں "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 793 ) دار قطنى اور حاكم نے اسے صحيح كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے بھى صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" ايك نابينا شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے كے ليے كوئى شخص نہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت دے دى، اور جب وہ جانے كے ليے پلٹا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بلايا اور فرمانے لگے:
كيا تم نماز كے ليے اذان سنتے ہو ؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر آيا كرو "
اس كے علاوہ بھى كئى ايك دلائل ہيں.
اذان سننے سے مقصود يہ ہے كہ: وہ بغير لاؤڈ سپيكر كے ماحول اور فضا ميں خاموشى كے وقت عام آواز سنتا ہو، اور سماعت ميں كوئى چيز مانع نہ اس كے ساتھ يہ بھى خيال ركھا جائے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مؤذن اذان اونچى اور بلند جگہ پر ديا كرتے تھے، مثلا مسجد كى چھت وغيرہ پر، اور اس وقت عمارتيں آواز كو منتشر كرنے كے قابل تھيں جس كى بنا پر اذان كى آواز اتنى مسافت تك پہنچتى تھى جو كم نہ ہوتى تھى.
تو اس بنا پر مذكورہ بالا اوصاف ہونے كى صورت ميں دس منٹ كى پيدل مسافت تك تو اذان كى آواز پہنچ سكتى ہے، بلكہ اس سے بھى زيادہ مسافت تك.
اس بنا پر آپ كے خاوند كو يہ اسلامى شعائر مسجد ميں ادا كرنا چاہيے جب تك اس ميں كوئى شرعى مانع نہ ہو, آپ مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 20655 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور مسافت دور ہونے كى بنا پر نماز باجماعت انسان پر واجب نہيں رہتى كا معنى يہ نہيں كہ وہ كم ہمتى كا مظاہرہ كرے اور جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنے كے بلند و عالى درجات اور اجروثواب حاصل نہ كرے، چنانچہ مسجد ميں باجماعت نماز ادا كرنے ميں كتنى ہى خير ہے جو وہاں جا كر نماز ادا كرنے والا حاصل كرتا ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" نماز باجماعت اس كى اپنے گھر اور بازار ميں نماز سے پچيس درجہ زيادہ ہے، اگر تم ميں كوئى شخص اچھى طرح وضوء كر كے مسجد ميں صرف نماز كے ليے آئے تو ہر قدم كے بدلے اللہ تعالى اس كا ايك درجہ بلند كرتا ہے اور اس كى ايك غلطى مٹاتا ہے، حتى كہ وہ مسجد ميں داخل ہو جائے، اورجب مسجد ميں داخل ہو تو وہ اس وقت تك نماز كى حالت ميں رہتا ہے جب تك اسے ( نماز ) روكے ركھے، اور جب تك وہ نماز ادا كرنے والى جگہ پر بيٹھا رہتا ہےجب تك اس ميں كوئى حدث يعنى وضوء نہ توڑے، فرشتے اس پر رحمت كى دعائيں كرتے ہوئے كہتے ہيں: اے اللہ اسے بخش دے، اس پر رحم كر "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 465 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 649 ).
ہم ميں كون ہے جو اپنے درجات بلند نہ كروانا چاہتا ہو، اور اپنى غلطياں اور خطائيں نہ معاف كروائے ؟ اور اس كے ليے فرشتے بخشش طلب نہ كريں؟!
آپ كے خاوند كو چاہيے كہ وہ مسجد ميں جاكر نماز باجماعت ادا كرے اور مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ كا باعث بننے كى كوشش كرے، اور اسے يہ ادراك ہونا چاہيے كہ مسلمانوں كا اپنے دين پر ثابت قدم رہنا ا ور اپنے دين كے شعارات كا احياء كرنا ان كى بقا كے عوامل، اور ان كى پختگى اور دشمنوں پر نصرت و مدد كے عوامل ميں شامل ہوتا ہے، بلكہ دين پر ثابت قدمى تو اس مؤثر دعوت اور دوسروں كے دلوں كو اپنى جانب جذب كرنے والى دعوت كى ايك قسم ہے.
ايسے ہى والد كو اپنے اہل وعيال اور اولاد كے ليے بہترين نمونہ اور قدوہ ہونا چاہيے، جب وہ اپنے والد كو مسجد جاتے ديكھيں گے ہى نہيں تو انہيں مسجد جانے كى عادت كيسے پڑے گى ؟
اللہ سبحانہ وتعالى نے مسجد آباد كرنے والوں كى تعريف كرتے ہوئے فرمايا:
اللہ تعالى كى مساجد كى آبادى اور رونق تو ان كے حصے ميں آتى ہے جو اللہ تعالى پر اور قيامت پر ايمان ركھتے ہوں، نمازوں كے پابند ہوں، زكاۃ ادا كرتے ہوں، اللہ تعالى كے سوا كسى اور سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے كہ يہى لوگ يقينا ہدايت يافتہ ہيں التوبۃ ( 18 ).
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ نماز باجماعت كى فضيلت تو اسے ہى حاصل ہوتى ہے جو صرف نماز كے ليے گھر سے نكلے، نہ كہ كسى اور كام كے ليے، اس كا ذكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس طرح فرمايا:
" وہ صرف نماز ادا كرنا چاہتا ہو"
جيسا كہ مندرجہ بالا حديث ميں بيان ہو چكا ہے.
يہاں ايك اہم چيز كا ادراك ضرورى ہے، وہ يہ كہ فقھاء كرام كى ايك جماعت نماز باجماعت كو واجب نہيں سمجھتى جيسا كہ فقھاء حنفيہ كا مذھب ہے، ليكن يہ مسلك احاديث كے خلاف ہے، اور يہ مسلك ہزاروں بلكہ لاكھوں مسلمانوں كو سخت حالات ميں بھى بلقان، تركى اور مشرقى يورپ وغيرہ كے علاقوں ميں نماز باجماعت ادا كرنے اور اس كا التزام كرنے سے منع نہيں كرتا.
اور پھر معاملہ وجوب اور عدم وجوب كا نہيں، بلكہ يہ تو ايمانى قوت ہے جو انسان كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے عمل كى متابعت كرنے پر ابھارتى ہے، اور صاحب ايمان جنت ميں بلند درجات كے علاوہ كچھ حاصل كرنے كے بغير راضى نہيں ہوتا.
صحابى كو مرض كى اس حالت ميں لايا جاتا كہ اس نے دو آدميوں كے كندھوں پر سہارا ليا ہوتا اور اسے لا كر صف ميں كھڑا كر ديا جاتا، حالانكہ اگر وہ جماعت سے پيچھے بھى رہ جاتا تو وہ معذور تھا، اسے ايسا كام كرنے پر كس چيز نے آمادہ كيا اور حركت دى ؟ يقينا وہ قوت ايمان تھى.
چنانچہ صاحب ہمت وجوب كے متعلق دريافت نہيں كرتا، بلكہ وہ تو شعار، ہدايت، اور سنت و منھج تلاش كرتا ہے.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى كہتے ہيں:
( جسے يہ بات اچھى لگتى ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو اسے يہ نمازيں وہاں ادا كرنے كا التزام كرنا چاہيے جہاں اذان ہوتى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تمہارى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سنن الھدى مشروع كيں، اور يہ سنن الھدى ميں سے ہيں، اگر اپنے گھر ميں پيچھے رہنے والے شخص كى طرح تم بھى اپنے گھروں ميں نماز ادا كرو تو تم نے اپنے نبى كى سنت كو ترك كر ديا، اور اگر تم اپنے نبى كى سنت ترك كرو گے تو تم گمراہ ہو جاؤ گے، جو شخص بھى اچھى طرح وضوء كر كے ان مساجد ميں سے كسى ايك مسجد جائے تو ہر قدم كے بدلے اللہ تعالى ايك نيكى لكھتا اور ايك درجہ بلند كرتا، اور اس كى بنا پر ايك برائى كو مٹاتا ہے، ہم نے ديكھا كہ منافق جس كا نفاق معلوم ہوتا وہى اس سے پيچھے رہتا، ايك شخص كو لايا جاتا اور وہ دو آدميوں كے درميان سہارا لے كر آتا اور اسے صف ميں كھڑا كر ديا جاتا )
صحيح مسلم حديث نمبر ( 654 ).
ہم نے اذان سننے كے مسئلہ ميں كچھ بيان كيا ہے وہ فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كا فتوى ہے، ان سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص مسجد سے دور رہائش پذير ہے، اور نماز كے ليے مسجد جانے كے ليے اسے گاڑى استعمال كرنا پڑتى ہے، اگر پيدل جائے تو بعض اوقات نماز نكل جاتى ہے، اسے اذان لاؤڈ سپيكر كے ذريعہ سنائى ديتى ہے، تو كيا اگر وہ گھر ميں يا پھر دو تين پڑوسيوں كے ساتھ مل كر كسى كے گھر ميں نماز ادا كرے تو اس ميں كوئى حرج ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
( اگر آپ ماحول اور فضاء ميں خاموشى كے وقت جبكہ سماعت ميں كوئى چيز مانع نہ ہو عادى آواز ميں بغير لاؤڈ سپيكر كے اذان سنتے ہيں تو پھر آپ كو اپنے مسلمان بھائيوں كے ساتھ مسجد ميں نماز ادا كرنا واجب ہے.
اور اگر آپ دور ہيں اور لاؤڈ سپيكر كے بغير اذان نہيں سنتے تو اپنے گھر يا پڑوسيوں كے ساتھ مل كر نماز ادا كرنا جائز ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ جب نابيان صحابى نے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى اجازت مانگى تو آپ نے اسے فرمايا تھا:
" كيا تم نماز كے ليے دى جانے والى اذان سنتے ہو ؟
تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر اسے قبول كرو اور آيا كرو"
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اذان سنى اور وہ نماز كے ليے نہ آيا تو اس كى بغير عذر نماز نہيں "
اسے ابن ماجہ دار قطنى ابن حبان اور حاكم نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور جب آپ اذان سن كر مؤذن كى اذان كو قبول كريں چاہيں آپ دور ہى كيوں نہ ہوں، اور مسجد جانے كے ليے پيدل يا پھر گاڑى كے ذريعہ مشقت اٹھائيں تو آپ كے ليے يہ بہتر اور افضل ہے، اللہ تعالى آپ كے مسجد جانے اور واپس آنے ميں قدموں كے آثار كے بدلے حسب اخلاص اور نيت نيكياں لكھيں گے؛ كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے مسجد سے دور رہائش پذير شخص جس كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ نماز نہيں رہتى تھى جب اسے كہا گيا كہ اگر تم گدھا خريد لو جس پر اندھيرى رات اور دن كى گرمى ميں سوار ہو كر جايا كرو ؟ تو اس نے جواب ديا: ميں پسند نہيں كرتا كہ ميرا گھر مسجد كے قريب ہو، بلكہ ميں پسند كرتا ہوں كہ ميرا چلنا اور واپس اپنے اہل وعيال ميں آنا سب كچھ لكھا جائے تو اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا اللہ تعالى نے يہ سب كچھ تيرے ليے جمع كر ديا ہے "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے. انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 12 / 36 ).
واللہ اعلم .