ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

اپنی بیٹی سے کہہ دیا: میں تمہاری والدہ کو طلاق دے دوں گا۔

389889

تاریخ اشاعت : 19-01-2024

مشاہدات : 301

سوال

میری چھوٹی بیٹی نے مجھے ایک بار کہا: دو ہفتے بعد چھٹیوں میں اگر میری والدہ سیر پر جانے کے لیے راضی نہ ہوں تو آپ انہیں طلاق دے دیں۔ تو میں نے بھی مزاح میں اسے کہہ دیا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔ تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب کا خلاصہ

یہ بات ایسے ہی کہ آپ نے کہہ دیا ہو کہ: اگر میری بیوی سیر پر جانے کے لیے تیار نہ ہوئی تو میں اسے طلاق دے دوں گا۔ یہ جملہ کہنا طلاق دینا شمار نہیں ہوتا، نہ ہی اسے طلاق معلق کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو محض مستقبل کے متعلق ارادے کی خبر دینا ہے کہ وہ مستقبل میں بیوی کو طلاق دے دے گا، یا مستقبل میں طلاق دینے کا وعدہ یا دھمکی ہے اور اس سے اہل علم کے متفقہ موقف کے مطابق طلاق نہیں ہوتی؛ کیونکہ طلاق کے لیے لفظوں میں طلاق دینا لازم ہوتا ہے، مستقبل میں طلاق کا محض وعدہ کرنے سے یا طلاق کی دھمکی دینے سے طلاق نہیں ہوتی ، بالکل ایسے ہی جیسے کہ محض طلاق کی نیت بھی طلاق دینے کے لیے ناکافی ہوتی ہے، چنانچہ ایسے الفاظ میں طلاق دینا لازم ہوتا ہے جن سے واقعی طلاق دینا ثابت ہو، مستقبل میں طلاق دینے کی محض خبر نہ ہو۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یہ بات ایسے ہی کہ آپ نے کہہ دیا ہو کہ: اگر میری بیوی سیر پر جانے کے لیے تیار نہ ہوئی تو میں اسے طلاق دے دوں گا۔ یہ جملہ کہنا طلاق دینا شمار نہیں ہوتا، نہ ہی اسے طلاق معلق کہا جا سکتا ہے۔

یہ تو محض مستقبل کے متعلق ارادے کی خبر دینا ہے کہ وہ مستقبل میں بیوی کو طلاق دے دے گا، یا مستقبل میں طلاق دینے کا وعدہ یا دھمکی ہے اور اس سے اہل علم کے متفقہ موقف کے مطابق طلاق نہیں ہوتی؛ کیونکہ طلاق کے لیے لفظوں میں طلاق دینا لازم ہوتا ہے، مستقبل میں طلاق کا محض وعدہ کرنے سے یا طلاق کی دھمکی دینے سے طلاق نہیں ہوتی ، بالکل ایسے ہی جیسے کہ محض طلاق کی نیت بھی طلاق دینے کے لیے ناکافی ہوتی ہے، چنانچہ ایسے الفاظ میں طلاق دینا لازم ہوتا ہے جن سے واقعی طلاق دینا ثابت ہو، مستقبل میں طلاق دینے کی محض خبر نہ ہو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طلاق کا وعدہ کرنے سے طلاق نہیں ہوتی، چاہے یہ وعدہ کتنی ہی بار کیوں نہ کر لے، نیز اس وعدے کو پورا کرنا بھی واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب بھی نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (33/111)

آپ رحمہ اللہ سے مزید یہ بھی پوچھا گیا:
ایک شخص نے نیت کر لی کہ جب اس کی اہلیہ کو ماہواری آئے گی تو وہ اسے طلاق دے دے گا، لیکن اس نے طلاق دینے کے لیے الفاظ نہیں کہے ۔۔۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"الحمدللہ۔ اگر اس شخص نے محض نیت ہی کی تھی کہ بیوی کو ماہواری آنے پر طلاق دے دے گا، تو یہ اہل علم کے متفقہ موقف کے مطابق طلاق نہیں ہو گی، بلکہ طلاق دینے کے لیے اسے حیض آنے کے بعد طلاق کے الفاظ بولنے ہوں گے ، اور اگر بعد میں بول کر طلاق نہیں دیتا تو کوئی طلاق نہیں ہو گی۔" ختم شد
"مجموعة الفتاوى" (33/113)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
ایک آدمی نے اپنے بھائی سے کہا کہ: میری اہلیہ کے والد کے پاس جاؤ اور انہیں کہہ دو کہ : ہم طلاق دینا چاہتے ہیں، تو کیا اس سے طلاق واقع ہو جائے گی؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر آپ نے اپنے بھائی سے صرف اتنا ہی کہا ہے کہ: ہم طلاق دینا چاہتے ہیں۔ تو یہ طلاق نہیں ہے، بلکہ یہ طلاق کا تذکرہ ہے۔"
اللہ تعالی سمجھنے کی توفیق دینے والا ہے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور صحابہ کرام ہے۔
الشیخ عبد اللہ بن قعود الشیخ عبد اللہ بن غدیان      الشیخ عبد الرزاق عفیفی    الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (20/27)

الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ: اس نے اپنی اہلیہ سے کہا: جب تم حیض سے پاک ہو جاؤ گی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا، تو کیا اس طرح طلاق ہو جاتی ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے خاوند کی طرف سے بیان کی گئی ہے تو پھر اس سے طلاق واقع نہیں ہو گی، اس کی بیوی اب بھی اس کے عقد میں موجود ہے؛ کیونکہ خاوند کا یہ کہنا کہ: "جب تم حیض سے پاک ہو جاؤ گی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔" یہ طلاق کی دھمکی ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى الشيخ ابن باز" (22/37)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب