الحمد للہ.
روزہ کے لیے صرف پانی یا پھر نمک ملے پانی سے کلی کرنے میں کوئي حرج نہيں اورخاص کرجب تکلیف کم کرنے کے لیے اس کی ضرورت بھی ہو ، لیکن شرط یہ ہےکہ اسے پیٹ میں جانے سےاحتراز کرنا ہوگا لیکن اگر غلطی سے اس کے پیٹ میں کچھ داخل ہوجائے تو اس پر کوئي گناہ نہیں اوراس کا روزہ صحیح ہوگا ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگر روزے دار کے پیٹ میں گردوغبار اڑ کر چلی جائے یا پھر اس کے اختیارکے بغیر کوئي چيز داخل ہوجائے یا کلی کرتے ہوئے اورناک مین پانی چڑھاتے ہوئے اس کے اختیار کے بغیر غلطی سے کچھ پانی پیٹ میں چلا جائے تواس پر کوئي گناہ نہیں اوراس کا روزہ صحیح ہے ۔
دیکھیں مجالس شھر رمضان ، المجلس خمسۃ عشر پندرویں مجلس ۔ واللہ تعالی اعلم ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گيا کہ آیا گرمی کی شدت سے کلی کرنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا ، اس لیے کہ منہ ظاہر کے حکم میں ہے ، اس لیے روزہ دار روزہ کی حالت میں کلی کرلے تو اس سے روزہ فاسد نہيں ہوتا ، اورپھر جب وضوء میں کلی کرنا واجب ہے ، اگر منہ بدن کی طرح ظاہر کے حکم میں نہ ہوتا تواس کا دھونا بھی وضوء میں واجب نہيں ہوسکتا تھا ۔
پھر یہ بھی ہے کہ جب روزہ دارکامنہ گرمی کی شدت سے خشک ہورہا تو کلی کرنے میں روزہ کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں گرمی کی شدت اورپیاس کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہایا کرتے تھے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2365 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اورعبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما روزے کی حالت میں ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے کپڑے گیلے کرکے پہنا کرتے تھے ، اورانس بن مالک اپنے حوض میں پانی بھر کر روزہ کی حالت میں تیراکی کیا کرتے تھے ۔
یہ سب کچھ اس پر دلالت کرتا ہےکہ روزہ کی تخفیف کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ، اوراس میں کوئي حرج والی بات نہیں ، لیکن کلی کرنے والے کو اس کا خیال کرنا چاہیے کہ کلی سے کہیں پانی اس کے حلق نہ جائے کیونکہ حلق میں جانے سے روزہ کو خطرہ ہے ۔
لیکن اس کے باوجود اگر اس کے اختیارکے بغیر غلطی سے پانی پیٹ میں داخل ہوجائے تو اس میں کوئي حرج نہیں ۔
دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 19 ) اوپر والا عبداللہ بن عمر اورانس رضی اللہ تعالی عنہما کا اثر امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے تعلیقا روایت کیا ہے ۔
آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 38907 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔
واللہ اعلم .