الحمد للہ.
نماز جمعہ ايك اسلامى شعار، اور اس كے عظيم فرائض ميں سے ہے، اس كے ترك كرنے كے ليے بہت شديد وعيد آئى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے حقارت كى بنا پر مسلسل تين جمعہ ترك كر ديے اللہ تعالى اس كے دل پر مہر ثبت كر ديتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1052 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1126 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
نماز باجماعت مسجد ميں ادا كرنا ہر استطاعت ركھنے اور اذان سننے والے مسلمان پر واجب ہے، اس كے وجوب ميں بہت سے دلائل ہيں، جو آپ كو سوال نمبر ( 120 ) كے جواب ميں مليں گے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اذان سننے سے مقصود اور مراد يہ ہے كہ: انسان عام اور معتاد آواز ميں لاؤڈ سپيكر كے بغير اذان سنے، اور مؤذن بلند آواز سے اذان دے رہا ہو، اور فضاء ميں سكون اور خاموشى ہو، اور سماعت ميں كوئى مانع چيز نہ پائى جائے، اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21969 ) اور ( 20655 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
يہ تو نماز پنجگانہ باجماعت كے متعلق تھا، اور نماز جمعہ كى حالت اس كے علاوہ ہے، فقھاء كرام كہتے ہيں:
شہر يا بستى جہاں نماز جمعہ كى ادائيگى ہوتى ہو وہاں موجود ہر شخص پر نماز جمعہ كى ادائيگى واجب ہے، چاہے وہ اذان سنے يا نہ سنے، يہ متفق عليہ مسئلہ ہے جس كا بيان آگے آ رہا ہے.
اور جو شہر يا بستى سے باہر ہو اور ان كے ہاں نماز جمعہ نہ ہوتا ہو تو اس ميں اختلاف ہے:
بعض فقھاء كہتے ہيں كہ: اگر وہ ـ شہر يا بستى كى نماز جمعہ كے ليے دى گئى اذان ـ اذان سنتے ہوں تو ان پر نماز جمعہ كى ادائيگى لازم ہے، اور اگر نہيں سنتے تو لازم نہيں، شافعيہ كا مسلك يہى ہے، اور محمد بن حسن رحمہ اللہ كا يہى قول ہے، اور احناف كے ہاں اسى كا فتوى ہے.
اور كچھ فقھاء كہتے ہيں: اگر ان كے اور نماز جمعہ كى ادائيگى والى جگہ كے مابين ايك فرسخ سے زيادہ يعنى تين ميل كى مسافت ہو تو ان پر نماز جمعہ لازم نہيں، اور اگر ايك فرسخ يا اس سے كم مسافت ہو ان پر نماز جمعہ لازم ہے، مالكيہ، اور حنابلہ كا مسلك يہى ہے.
اور بعض فقھاء كہتے ہيں: جو شخص نماز جمعہ كے ليے جائے اور رات سے قبل واپس آ جائے اس پر نماز جمعہ واجب ہے، اسے ابن منذر نے ابن عمر، انس اور ابو ہريرہ اور معاويہ، حسن، رضى اللہ تعالى عنہم، اور نافع مولى ابن عمر، عكرمہ، عطاء، حكم، اوزاعى، ابو ثور رحمہم اللہ سے بيان كيا ہے.
ہم نے شہر يا بستى سے باہر والے كى حكم كى تنبيہ اس ليے كى ہے كہ بعض لوگ يہ گمان كرتے ہيں كہ يہ اختلاف شہر ميں بسنے والوں كے متعلق ہے، اور يہ گمان صحيح نہيں.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امام شافعى اور ان كے اصحاب كا كہنا ہے: جب شہر ميں چاليس يا اس سے زيادہ اہل كمال ہوں تو اس ميں موجود ہر شخص پر نماز جمعہ واجب ہے اگرچہ شہر كا علاقہ كئى فرسخ پر محيط ہو، اور چاہے اذان سنے يا نہ سنے، يہ متفق عليہ ہے. انتہى
ماخوذ از: المجموع ( 4 / 353 ).
المرداوى نے " الانصاف " ميں كہتے ہيں:
فرسخ كے اندازے، يا اذان سننے كے امكان يا سنائى ديے جانے، يا ان كا اسى دن وہاں جا كر واپس آنے ميں محل خلاف يہ ہے كہ: يہ بستى ميں مقيم ان لوگوں كے متعلق ہے جن كى تعداد جمعہ ميں شرط تك نہ پہنچے، يا پھر جو خيمے وغيرہ ميں مقيم ہيں، يا جو قصر كى مسافت سے كم سفر والے مسافر ہيں، تو ان اور اس طرح كے دوسرے لوگوں ميں محل خلاف ہے.
ليكن جو اس شہر ميں مقيم ہيں جہاں نماز جمعہ ہوتا ہے اس پر جمعہ لازم ہے، چاہے اس كے اور جمعہ والى جگہ كے مابين كئى فرسخ كى مسافت ہو چاہے وہ اذان سنے يا نہ سنے، چاہے اس كى آبادى متصل ہو يا كٹى ہوئى، جب اس كا نام ايك ہى ہو. انتہى
درج ذيل كتابوں كا بھى مطالعہ كيا جائے:
مجمع الانھر ( 1 / 169 ) حاشيۃ العدوى على شرح الرسالۃ ( 1 / 376 ) كشاف القناع ( 2 / 22 ).
حاصل يہ ہوا كہ:
شہر يا بستى ميں مقيم شخص پر نماز جمعہ واجب ہے، چاہے وہ اذان سنے يا نہ سنے، اس ميں كوئى اختلاف نہيں.
ليكن شہر كے مفہوم كى تحديد ميں اختلاف پايا جاتا ہے، كہ اگر وہ ايك دوسرے سے دور ہو اور كٹ جائے كہ اس كے درميان كھيت وغيرہ آ جائيں تو بعض علماء كرام كا كہنا ہے:
اگر كٹ جائے اور اس كے درميان كھيت آ جائيں تو ہر محلہ گويا ايك مستقل شہر ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ يہ قول بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:
" ليكن صحيح يہ ہے كہ جب اس كا نام ايك ہى ہو تو وہ ايك ہى شہر شمار ہو گا، چاہے يہ شہر وسيع ہو جائے اور اس كے دونوں كناروں كے مابين كئى ميل يا فرسخ كا فاصلہ ہو، تو وہ ايك ہى وطن ہو گا، اس كے مشرقى كنارے پر بھى جمعہ اسى طرح لازم ہے جس طرح مغربى كنارے پر، اور اسى طرح شمال اور جنوب ميں، كيونكہ وہ ايك ہى شہر ہے" انتہى
ماخوذ از: الشرح الممتع ( 5 / 17 ).
واللہ اعلم .