الحمد للہ.
ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ تھوڑا سا تيل بالوں تك پانى جانے ميں مانع نہيں.
اصول يہ ہے جيسا كہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے:
جب انسان وضوء كے اعضاء پر كوئى كريم يا تيل استعمال كرے يا تو اس كى چكنائى جامد ہوگى جو جلد پر باقى رہے اور نظر آئے گى تو اس وقت وضوء كرنے سے قبل اسے اتارنا ضرورى ہے، كيونكہ اگر يہ اسى حالت ميں رہے تو جلد تك پانى پہنچنے ميں مانع ہوگى، تو اس طرح وضوء صحيح نہيں ہوگا.
ليكن اگر تيل وغيرہ جامد نہ ہو اور اس كا جسم نہ ہو بلكہ صرف اعضاء پر اس كا اثر باقى رہے تو يہ نقصان دہ نہيں، ليكن اس حالت ميں انسان كو وضوء كرتے وقت اپنا ہاتھ عضوء پر پھيرنا چاہيے كيونكہ عام طور پر چكنائى سے پانى پھسل جاتا ہے، ہو سكتا ہے پانى سارے عضوء كو نہ لگے. اھـ
ديكھيں: فتاوى الطہارۃ ( 147 ).
اس پر اضافہ يہ ہے كہ سر كے مسح ميں تحفيف ہے، كيونكہ سر كا مسح فرض ہے، نہ كہ دھونا، اور مسح كرنے ميں بعينہ سارے بالوں پر پانى پھيرنا لازم نہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر عورت نے اپنے سر پر مہندى كا ليپ كر ركھا ہو كيا وہ اس پر مسح كر سكتى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جب عورت سر پر مہندى وغيرہ كا ليپ كرے تو وہ اس پر مسح كرےگى اور اس مہندى كو اتارنے كى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے احرام كى حالت ميں ليپ كر ركھا تھا، چنانچہ سر پر جو ليپ كيا جائے وہ اس كے تابع ہے، يعنى سر كے تابع ہے، يہ اس بات كى دليل ہے كہ سر كى تطہير ميں سہولت ہے. اھـ
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 28 ).
تلبيد مہندى كى طرح سر پر كوئى چيز لگانے كو كہتے ہيں تا كہ بال چپك جائيں، اور ان ميں مٹى وغيرہ داخل نہ ہو .
واللہ اعلم .