الحمد للہ.
اول:
اگر عورت فجر سے ایک گھنٹہ پہلے حیض جاری دیکھ کر سو گئی پھر جب اٹھی تو وہ پاک ہو چکی تھی، عورت کو اب شک ہے کہ طہر فجر سے پہلے حاصل ہوا یا بعد میں؟ تو اصولی طور پر یہ حکم لگایا جائے گا کہ طہر فجر کے بعد حاصل ہوا ہے۔
اس لیے کہ: " اصول یہ ہے کہ حادث کو اس کے قریب ترین اوقات سے منسلک کیا جائے گا " یہ ایک فقہی قاعدہ ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ: "اگر کسی حادث کے رونما ہونے کے وقت کے متعلق اختلاف واقع ہو جائے، اور اس کی تعیین کے لیے کوئی دلیل نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں اسے ممکنہ قریب ترین وقت کے ساتھ منسلک کیا جائے گا؛ کیونکہ قریب ترین ممکنہ وقت یقینی ہو گا، جبکہ ممکنہ لیکن دور کا وقت مشکوک ہو گا، تاہم جب دور کے وقت میں اس کا ہونا ثابت ہو رہا ہو تو پھر اسی پر عمل کیا جائے گا۔" ختم شد
"موسوعة القواعد الفقهية" از ڈاکٹر محمد صدقی برنو (12/316)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (191684 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
پھر یہ بھی ہے کہ روزے کے صحیح ہونے کے لیے فجر سے پہلے طہر کا یقینی ہونا لازم ہے، لہذا طہر کے متعلق شک کی صورت میں روزہ صحیح نہیں ہو گا۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک عورت نے روزہ رکھا اور اسے طہر کے متعلق شک تھا، تاہم جب صبح بیدار ہوئی تو وہ حیض سے پاک ہو چکی تھی، تو کیا اس کا روزہ صحیح ہو گا ؟ حالانکہ اسے طہر کے بارے میں یقین نہیں تھا۔
تو انہوں نے جواب دیا:
مذکورہ عورت کا روزہ شروع ہی نہیں ہوا، اسے اس دن کے روزے کی قضا دینی ہو گی؛ کیونکہ یہاں اصل یہ ہے کہ حیض جاری ہے، اور اس عورت کا غیر یقینی طہر کی حالت میں روزہ رکھنا ، قبولیتِ عبادت کے لیے ضروری لیکن مشکوک شرط کے ساتھ عبادت کا آغاز کرنا ہے، جس سے عبادت شروع ہی نہیں ہو سکے گی۔" ختم شد
"مجموع فتاوی شیخ ابن عثیمین" (19/107)
اس بنا پر: اس دن میں آپ کا روزہ صحیح نہیں تھا، اس لیے اس دن کے روزے کی قضا آپ پر لازم ہے۔
دوم:
اگر حیض والی خاتون دن میں پاک ہو جائے تو کیا اس پر دن کا بقیہ حصہ ماہ رمضان کے احترام میں کھانے پینے اور دیگر روزے کے منافی امور سے رکے رہنا لازم ہو گا؟
اس بارے میں فقہائے کرام کے دو مختلف اقوال ہیں:
ان دونوں اقوال میں سے راجح موقف شافعی اور مالکی فقہائے کرام کا ہے کہ: اس خاتون پر کھانے پینے اور دیگر روزے کے منافی امور سے رکے رہنا واجب نہیں ہے۔ اسی موقف کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے "الشرح الممتع" (6/344) میں اختیار کیا ہے۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (18/318) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کے ہاں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جب فجر کی نماز کے بعد حیض کا خون رک جائے تو پھر اس دن کا روزہ اس کے لیے کفایت نہیں کرے گا، اس پر اس دن کی قضا دینا لازم ہو گا۔
فقہائے احناف اور حنبلی اہل علم کے ہاں اس پر دن کا بقیہ حصہ کھانے پینے سے رکے رہنا لازم ہے۔
جبکہ مالکی فقہائے کرام کے ہاں: یہ خاتون روزہ توڑنے والی اشیا استعمال کر سکتی ہے، اس کے لیے کھانے پینے وغیرہ سے رکے رہنا مستحب بھی نہیں ہے۔
اور شافعی فقہائے کرام کے ہاں بھی اس عورت پر کھانے پینے وغیرہ سے رکے رہنا لازم نہیں ہے۔" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (65635 ) اور (68829 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم