جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

خيانت كرنے والے كے ساتھ خيانت نہ كريں

40649

تاریخ اشاعت : 13-01-2011

مشاہدات : 6982

سوال

ايك شخص جو ايك پرائيويٹ آفس ميں كام كرتا ہے، اسے بيمارى كے باعث دوران علاج كام چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا، اس كے بعد جب وہ ملازمت پر آيا اور اس نے ان ايام كے حق كا مطالبہ كيا جن ميں كام كرتا رہا تھا، ليكن مالك نے اسے حق دينے سے انكار كر ديا كہ اس كا كوئى حق نہيں ہے، اور ملازم شخص كو رقم كى ضرورت ہے، تو اس نے اپنے كام كے بدلے جمع كردہ مال ميں سے روزانہ ايك دينار لينا شروع كر ديا، وہ صرف اپنا حق لينا چاہتا ہے، اس سے زيادہ نہيں، تو كيا يہ حلال ہے يا حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس كے ليے يہ حلال نہيں، كيونكہ يہ مال جس كے بارہ ميں وہ دعوى كر رہا ہے كہ يہ اس كا حق ہے اس مال پر مالك نے اسے امين بنايا ہے، اور جسے كسى چيز كا امين بنايا جائے اور وہ چيز اس كے پاس بطور امانت ہو اسے مالك كو واپس كرنا ضرورى ہے، اور اس ميں خيانت كرنى جائز نہيں.

فرمان بارى تعالى ہے:

بلاشبہ اللہ تعالى تمہيں حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں ان كے مالكوں كو لوٹا دو النساء ( 58 )

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

"جس نے تمہارے پاس امانت ركھى ہو ہے اس كى امانت اسے دے دو، اور جس نے تمہارى خيانت كى اس كے ساتھ تم خيانت نہ كرو"

جامع ترمذى حديث نمبر ( 1264 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امانت مالك كو واپس كرنے كا حكم ديا اور خيانت كرنے والے كے ساتھ خيانت كرنے سے منع كيا ہے.

مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص جنرل سٹور پر كام كرتا ہے، اور مالك اسے چار يا چھ ماہ سے قبل تنخواہ نہيں ديتا، تو كيا وہ مالك كے علم ميں لائے بغير ہر ماہ سٹور سے تنخواہ لے سكتا ہے؟

كميٹى كا جواب تھا:

آپ جس سٹور پر ملازم ہيں اس كے مالك كے علم ميں لائے بغير اور اس كى اجازت كے بغير سٹور سے تنخواہ نہيں لے سكتے، آپ كو مالك سے تخواہ كا مطالبہ كرنا چاہيے، اور اگر وہ تنخواہ دينے سے انكار كرتا ہے تو پھر اس كے متعلقہ محكمہ ( ديوان مظالم ) ميں اس كى شكايت كريں تا كہ وہ آپ كى تنخواہ لے كر دے. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 145 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى مجموع الفتاوى ميں كہتے ہيں:

اور اگر كسى شخص كا كسى دوسرے كے ذمہ حق ہو، تو كيا وہ اسے يا اس كى نظير اس كى اجازت كے بغير لے سكتا ہے؟

اس كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

يہ كہ استحقاق كا سبب ظاہر ہو جو اثبات كا محتاج نہ ہو مثلا خاوند كے ذمہ عورت كا نان و نفقہ اور اخراجات، اور بچے كا استحقاق ہے كہ والد اس پر خرچ كرے، اور مہمان كا استحقاق ہے كہ ميزبان اس پر خرچ كرے، تو يہاں بلاشك و شبہ اس كے ليے بغير اجازت حق لينا جائز ہے.

جيسا كہ بخارى اور مسلم كى حديث ميں ہے كہ:

ہند بنت عتبہ بن ربيعہ رضى اللہ تعالى عنہا نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ابو سفيان بہت بخيل اور حريص شخص ہے، مجھے اتنا خرچہ نہيں ديتا جو مجھے اور ميرى اولاد كو كافى ہو.

تورسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اتنا لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارى اولاد كو كافى ہو"

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اجازت دى كہ وہ صاحب مال كى اجازت كے بغير اچھے اور احسن طريقہ سے اپنا خرچہ لے سكتى ہے، اور اسى طرح ہر وہ شخص بھى لے سكتا ہے جس كے متعلق معلوم ہو جائے كہ اس كا مال ظاہرا غصب ہوا ہے، اور لوگ بھى اسے جانتے ہيں كہ غصب ہوا ہے، تو غاصب كے مال سے غصب كردہ يا پھر غصب كردہ چيز جيسى چيز لينا صحيح ہے.

دوسرى قسم:

استحقاق كا سبب ظاہر نہ ہو، مثلا: مقروض كا قرض دينے سے انكار كرنا، يا پھر غصب كا انكار كردے اور مدعى كے پاس كوئى دليل نہ ہو، تو اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:

پہلا قول:

اسے ( بغير اجازت ) لينے كا كوئى حق نہيں، يہ مالك اور احمد كا مذہب ہے.

دوسرا قول:

وہ لے سكتا ہے، امام شافعى كا مسلك يہى ہے.

حق ظاہر نہ ہونے كى صورت ميں حق لينے سے منع كرنے والوں نے مندرجہ ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے آپ كے پاس امانت ركھى ہے اسے امانت ادا كرو، اور جس نے تيرے ساتھ خيانت كى ہے اس كى خيانت مت كرو"

اور مسند احمد ميں بشير بن الخصاصيۃ سے مروى ہے كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كہا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے كچھ پڑوسى ايسے ہيں جو نہ تو ہمارى پيچھے رہ جانے والى بكرى كو چھوڑتے ہيں اور نہ ہى اكيلى بكرى كو مگر اسے پكڑ ليتے ہيں، تو كيا جب ہم ان كى كسى چيز پر قادر ہوں تو اسے لے ليں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نہيں، جس نے تيرے پاس امانت ركھى اسے امانت دے دو، اور جس نے تيرے ساتھ خيانت كى اس كے ساتھ خيانت مت كرو"

تو يہ احاديث يہ بيان كرتى ہيں كہ: اگر مظلوم كے حق كا سبب ظاہر نہ ہو اور اس كا لينا خيانت ہو تو وہ حق نہيں لے سكتا، اگرچہ اس كا مقصد يہى ہو كہ وہ اس كى نظير لے رہا ہے؛ ليكن جس نے اس كے پاس امانت ركھى ہے وہ اس ميں خيانت كر رہا ہے، كيونكہ جب اس نے اپنا مال اس كے سپرد كر ديا تو اس كى اجازت كے بغير اس ميں سے كچھ لينے سے وہ خائن بن جائے گا، كيونكہ استحقاق ظاہر نہيں ہے.

يہ اس ليے كہ نفس خيانت بطور جنس حرام ہے تو پھر اس سے حق پورا كرنا جائز نہيں.... اور پھر خيانت كذب بيانى كى جنس سے تعلق ركھتى ہے، اگر يہ كہا جائے كہ: يہ خيانت تو نہيں؛ بلكہ حق پورا كرنا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى خيانت كرنے سے منع كر رہے ہيں جس نے خيانت كى ہے، وہ يہ كہ اس كے مال سے وہ كچھ لينا ہے جس كا وہ مستحق ہى نہيں.

اس كے جواب ميں يہ كہا جائے گا:

يہ كئى ايك وجوہات كى بنا پر ضعيف ہے:

پہلى وجہ: حديث ميں ہے كہ:

" كہ كچھ لوگ نہ تو ہمارى پيچھے رہ جانے والى بكرى كو چھوڑتے ہيں اور نہ اكيلى بكرى كو مگر وہ اسے پكڑ ليتے ہيں، تو كيا ہم ان كے مال ميں سے اس قدر لے ليں جتنا انہوں نے ليا ہے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

نہيں، جس نے تيرے پاس امانت ركھى ہے، اسے اس كى امانت واپس كرو، اور جس نے تمہارے ساتھ خيانت كى ہے اس كے ساتھ تم خيانت نہ كرو"

دوسرى وجہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اور تم اس كى خيانت مت كرو جس نے تمہارے ساتھ خيانت كى"

يعنى: تم اس كى خيانت كا مقابلہ كرتے ہوئے اس كے ساتھ تم بھى اسى طرح مت كرو جس طرح اس نے تمہارے ساتھ كيا ہے.

تيسرى وجہ:

اس كے خيانت ہونے ميں كسى بھى قسم كا كوئى شك نہيں، بطور قصاص اس كے جواز ميں كچھ ہے، كيونكہ كچھ ايسے امور ہيں جس ميں قصاص مباح ہے، مثلا قتل، اور راستہ روكنا، اور مال لينا، اور كچھ ايسے امور ہيں جن ميں قصاص مباح نہيں مثلا: فحش كام، اور جھوٹ وغيرہ، لھذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہاں يہ فرمايا كہ:

" اور جس نے تمہارے ساتھ خيانت كى تم اس كے ساتھ خيانت مت كرو"

تو اس سے علم ہوا كہ يہ اس ميں سے ہے جن ميں اس كى مثل سزا دينا مباح اور جائز نہيں. اھـ اختصار كے ساتھ.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب