الحمد للہ.
قرض اور اجرت کے بدلے وکالت جیسے عقدِ معاوضہ کو اکٹھا کرنا جائز نہیں ہے؛ بشرطیکہ یہ قرض کی شرط کے طور پر ہو، مثلاً: قرض مہیا کرنے والا شخص کہے: میں تمہیں قرض تب دوں گا جب تم مجھے اپنے پاس مزدوری دو، یا مجھے اجرت کے عوض اپنا وکیل بناؤ، یا معاوضہ لے کر میں اسی رقم کو ٹرانسفر کروں گا، یا وہ شخص اس وقت تک قرض دیتا ہی نہ ہو جب تک آپ رقم منتقل کرنے کے لیے اس کی بالمعاوضہ خدمات نہیں لیتے؛ اس کی دلیل جامع ترمذی: (1234)، ابو داود: (3504)، اور سنن نسائی: (4611) میں سیدنا عمرو بن شعیب عن ابیہ ، عن جدہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قرض اور بیع جمع کرنا حلال نہیں ہے۔) اس حدیث کو علامہ ترمذی اور البانی دونوں نے صحیح قرار دیا ہے۔
یہاں حدیث میں مذکور بیع کے ضمن میں ہمہ قسم کے عوض کے بدلے ہونے والے لین دین شامل ہوں گے۔
اسلامی فقہ اکادمی کی کمیشن سے متعلق قرار داد میں ہے کہ:
"کمیشن ایجنٹ / دلال کی جانب سے کسٹمر پر یہ شرط لگانا کہ اس کے سارے تجارتی لین دین اسی کے ذریعے ہوں گے، اس سے قرض اور بالمعاوضہ دلالی کو یک جا کرنا لازم آتا ہے، اور یہ چیز قرض اور بیع اکٹھا کرنے کے کی ایک شکل ہے جو کہ شرعی طور پر منع ہے اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (قرض اور بیع یک جا کرنا حلال نہیں ہے۔) ابو داود: (3/ 384)، ترمذی: (3/ 526) نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اپنے قرضے سے ہی فائدہ اٹھا رہا ہے، اور فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی بھی ایسا قرض جس سے فائدہ ملے تو وہ فائدہ حرام سود ہے۔" ختم شد
لیکن اگر یہ معاملہ قرض فراہم کنندہ کی طرف سے شرط کے بغیر ہو یعنی پہلے آپ نے اس سے قرض لیا، پھر آپ کو یہی رقم منتقل کرنے کی ضرورت پڑی تو آپ نے اسی شخص کو معاوضے کے عوض یہ ذمہ داری سونپ دی اور کسی بھی قسم کی طرف داری کیے بغیر مارکیٹ ریٹ کے مطابق اسے اجرت بھی دے دی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ چنانچہ اگر اس معاملے میں تھوڑی سی بھی طرفداری پائی گئی تو یہ سود ہو گا، کیونکہ یہ قرض نفع کا باعث بن رہا ہے۔
لیکن پھر بھی آپ خود اس رقم کو ٹرانسفر کریں یا کسی اور شخص کو ذمہ داری سونپیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
واللہ اعلم