ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے كا طريقہ

41675

تاریخ اشاعت : 22-02-2011

مشاہدات : 11153

سوال

نماز ميں نمازى اپنا داياں ہاتھ بائيں پر كيسے ركھے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز ميں داياں ہاتھ بائيں پر ركھنے كے دو طريقے ہيں:

پہلا طريقہ:

دائيں ہتھيلى بائيں ہاتھيلى، كلائى اور جوڑ پر ركھى جائے.

اس كى دليل ابو داود اور نسائى شريف كى درج ذيل حديث ہے:

وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے كہا: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور ديكھوں كہ آپ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں، چنانچہ ميں نے ان كى طرف ديكھا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير تحريمہ كہہ كر رفع اليدين كيا حتى كہ دونوں ہاتھ كانوں كے برابر ہو گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا.... الى آخر الحديث "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 726 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 889 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

نسائى شريف كے حاشيہ ميں سندى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

( پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا )

الرسغ: يہ ہتھيلى اور كلائى كے جوڑ كا نام ہے، اور اس سے مراد يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ اس طرح ركھا كہ دائيں ہتھيلى جوڑ پر آگئى اس سے يہ لازم آتا ہے كہ ہتھلى كا كچھ حصہ بائيں ہتھيلى پر اور كچھ حصہ كلائى پر ہو " انتہى.

دوسرا طريقہ:

دائيں ہاتھ بائيں پر باندھا جائے.

نسائى رحمہ اللہ تعالى نے وائل بن حجر رحمہ اللہ تعالى سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں كھڑے ہوتے تو اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھتے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 887 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى " صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم " ميں رقمطراز ہيں:

" اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى، جوڑ اور كلائى پر ركھتے تھے، اور اپنے صحابہ كو بھى اس كا حكم ديا، اور بعض اوقات دائيں ہاتھ كے ساتھ بائيں كو پكڑتے، اور دونوں ہاتھ سينے پر باندھتے " انتہى.

ديكھيں: صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 68 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب