جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

حديث: " من حج فلم يرفث ... " كا معنى

سوال

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:
" من حج فلم يرفث و لم يفسق رجع من ذنوبہ كيوم ولدتہ امہ "
كا معنى كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ حديث امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے حج كيا اور نہ تو حج ميں بيوى سے جماع كيا اور نہ ہى فسق و فجور تو وہ ايسے واپس پلٹتا ہے جيسے آج ہى اسے ماں نے جنم ديا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1521 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1350)

اور ترمذى كى روايت ميں ہے كہ:

" اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 811 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ حديث اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان كى طرح ہى ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

حج كے مہينہ معلوم اور مقرر ہيں، لہذا جس نے بھى ان مہينوں ميں حج كيا تو حج ميں نہ تو بيوى سے جماع ہے اور نہ ہى بے ہودہ گوئى اور نہ ہى فسق و فجور البقرۃ ( 197 ).

الرفث: بے ہودہ گوئى كو كہتے ہيں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: بيوى سے جماع كرنے كو كہتے ہيں.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ حديث سے مراد اس بھى زيادہ عام ہے، اور قرطبى رحمہ اللہ بھى اسى كى طرف مائل ہيں، اور روزے كے متعلق بھى فرمان يہى مراد ہے:

" جب تم ميں سے كسى ايك كا روزہ ہو تو وہ رفث يعنى بے ہودہ گوئى نہ كرے" انتہى

يعنى حديث ميں رفث سے مراد جماع اور بے ہودہ گوئى دونوں كو شامل ہے.

" اور نہ ہى وہ فسق كرے"

يعنى: نہ تو وہ كوئى برائى كرے اور نہ ہى كوئى نافرمانى.

" وہ اسطرح واپس آتا ہے جيسے اسے اس كى ماں نے آج ہى جنم ديا ہو"

يعنى بغير كسى گناہ كے واپس آتا ہے.

اور اس كا ظاہر تو يہى ہے كہ صغيرہ اور كبيرہ گناہ ہيں. يہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا قول ہے.

اور قرطبى اور قاضى عياض كا قول يہى ہے.

اور ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس كا تعلق ان گناہوں اور معاصى سے ہے جو اللہ تعالى كے متعلقہ ہيں نہ كہ بندوں كے متعلقہ.

يہ قول " فيض القدير " ميں مناوى رحمہ اللہ كا ہے.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:

" من حج فلم يرفث و لم يفسق رجع من ذنوبہ كيوم ولدتہ امہ " معنى يہ ہے كہ:

جب انسان دوران حج اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء رفث يعنى بيوى سے جماع اور فسق و فجور يعنى مخالف سے اجتناب كرتا ہے، اور اللہ تعالى كى جانب سے واجب كردہ چيز ميں سے كچھ بھى ترك نہيں كرتا، اور اسى طرح وہ اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء ميں سے كسى كا مرتكب نہيں ہوتا، ليكن اگر وہ اس كى مخالفت كرتا ہے تو يہ فسق ہے.

لہذا انسان حج كرے اور اس ميں فسق و فجور اور رفث نہ كرے تو گناہوں سے صاف شفاف ہو كر نكلتا ہے، جيسا كہ انسان ماں كے پيٹ سے نكلے تو اس پر كوئى گناہ نہيں ہوتا، تو اسى طرح جب وہ اس شرط كے ساتھ حج كرتا ہے تو گناہوں سے بالكل شفاف ہو جاتا ہے.

ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 20 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے :

حديث كا ظاہر تو يہى ہے كہ حج كبيرہ گناہوں كا كفارہ بنتا ہے، اور ہم اس ظاہر كو دليل كے بغير نہيں چھوڑ سكتے، اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ:

جب نماز پنجگانہ كفارہ اس وقت بنتى ہيں جب كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے اور يہ نمازيں تو حج سے بھى عظيم اور اللہ كو زيادہ محبوب ہيں، اس ليے حج باب اولى ہے.

ليكن ہم يہ كہينگے:

يہ حديث كا ظاہر ہے، اور اللہ تعالى كے حكم كى كئى حالتيں ہيں اور ثواب ميں قياس نہيں" انتہى بتصرف

ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 40 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب