اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا اہل جدہ پر طواف وداع واجب ہے ؟

42314

تاریخ اشاعت : 14-12-2008

مشاہدات : 7922

سوال

ہم جدہ ميں مقيم ہيں اور حج كے ليے گئے ليكن طواف وداع نہيں كيا كيونكہ ميرے والد نے طواف نہ كرنے ديا اور كہنے لگے كہ طواف وداع تو مسافر كرتا ہے، ہميں كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مستقل فتوى كميٹى سے دريافت كيا گيا كہ:

ميں جدہ ميں رہتا ہوں اور ہميشہ مكہ جاتا رہتا ہوں، كيا حج كے بعد مجھے طواف وداع كرنا ہوگا، يا كہ ميں اپنے شہر جانے تك طواف وداع مؤخر كردوں، اور كيا طواف وداع ميں تاخير كرنے كا كوئى كفارہ ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" جب آپ حج كريں تو طواف وداع كيے بغير جدہ نہ جائيں، اور اگر آپ طواف وداع كيے بغير جدہ چلے گئے تو آپ كو ايك بكرا مكہ ميں ذبح كر كے مكہ كے فقراء ميں تقسيم كرنا ہوگا، اور آپ اس ميں سے نہيں كھا سكتے، بلكہ يہ صرف فقراء كا حق ہے، كيونكہ حج كے بعد طواف وداع كرنا واجب ہے.

اس كى دليل ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ عمومى حديث ہے:

" لوگوں كو يہ حكم ديا گيا تھا كہ ان كا آخرى كام بيت اللہ كا طواف ہو، ليكن حائضہ عورت سے اس كى تخفيف كى گئى ہے "

متفق عليہ.

اور طواف وداع كيے بغير جدہ جانے كے عمل سے آپ كو توبہ و استغفار كرنا ہوگى"

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 303 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:

كيا طواف وداع كيے بغير حاجى جدہ جا سكتا ہے ؟ اور اگر كرے تو اس پر كيا لازم آتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" حج كے بعد طواف وداع كيے بغير حاجى مكہ سے نہيں جا سكتا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے كوئى بھى اس وقت تك نہ جائے جب تك كہ وہ سب سے آخرى ميں طواف نہ كر لے "

اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے.

اور صحيحين ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" لوگوں كو حكم ديا گيا تھا كہ وہ آخرى كام بيت اللہ كا طواف كريں، ليكن حائضہ عورت سے اس كى تخفيف كى گئى تھى "

اس ليے اہل جدہ اور اہل طائف كے ليے جائز نہيں كہ وہ حج كے بعد طواف وداع كيے بغير مكہ سے نكليں.

چنانچہ جو كوئى بھى طواف وداع كرنے سے قبل مكہ سے سفر كر جائے تو اس نے ايك واجب ترك كيا ہے اس بنا پراسے دم ديتے ہوئے ايك بكرا مكہ ميں ذبح كر كے حرم كے فقراء ميں تقسيم كرنا ہوگا، اس ميں اور بھى كئى اقوال كہے گئے ہيں، ليكن اس مسئلہ ميں اہل علم كے ہاں يہى قول صحيح ہے.

اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: اگر وہ طواف وداع كى نيت سے واپس آكر طواف كر لے تو يہ كفائت كر جائيگا اور اس سے دم ساقط ہو جائيگا، ليكن اس قول ميں نظر ہے، اور احتياط اسى ميں ہے كہ جب مؤمن شخص قصر كرنے والى مسافت كا سفر كرے اور وہ طواف وداع نہ كرے تو اس پر دم لازم آتا ہے جو اس كے حج كے نقصان كو پورا كرےگا "

ماخوذ از: مجلۃ الدعوۃ عدد نمبر ( 1685 ).

اور اگر عاجز ہونے كى بنا پر بكرا ذبح نہيں كرسكتا تو اس پر كوئى چيز لازم نہيں آتى، اور نہ ہى اس پر روزہ ركھنا لازم ہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

واجب ترك كرنے والے كى حكم ميں ميرے علم كے مطابق يہ ہے كہ:

تو اس وقت ہم واجب ترك كرنے والے كو يہ كہينگے كہ: خو يا كسى وكيل كے ذريعہ مكہ ميں ايك بكرا ذبح كر كے اس كا گوشت مكہ كے فقرا ميں تقسيم كرو، اور اگر آپ بكرا ذبح كرنے كى قدرت نہيں ركھتے تو آپ كى توبہ روزوں سے كفائت كر جائيگا، اس مسئلہ ميں ہمارى رائے تو يہى ہے. اھـ

ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 441 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب