سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

وضعى قوانين پڑھانے كا حكم

42950

تاریخ اشاعت : 12-06-2009

مشاہدات : 7116

سوال

وضعى قوانين كى تدريس كا حكم كيا ہے؟
اور اس پر لى جانے والى تنخواہ كا حكم كيا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

وضعى قوانين اس نيت سے پڑھنا اور پڑھانا كہ اس كى غلطياں بيان كى جائيں، اور اس كا بطلان ظاہر كرنے كے ليے، اور شريعت اسلاميہ كى بلندى اور شرف بيان كرنے كے ليے اور انسانوں كے ہر قسم كے حالات ميں شريعت اسلاميہ كا شمول اور صالح ہونا ثابت كرنا، كہ يہ شريعت ان كى عبادات، معاملات كے ليے صالح اور بہتر ہے، نہ كہ قوانين وضعيہ، تو اس بنا پر قوانين وضعيہ پڑھنا اور پڑھانا جائز ہيں.

اور جب ضرورت پيش آئے تو يہ قوانين پڑھنے اور پڑھانے واجب ہو جاتے ہيں: وہ اس شكل ميں كہ حق كو حق ثابت كرنے كے ليے اور باطل كو باطل، اور امت كو ان قوانين سے متنبہ كرنے كے ليے، تا كہ امت اسلاميہ اپنے دين كى حفاظت كرسكے، اور اس ميں محرفين كے شبہات سے دھوكہ نہيں كھائيں گے، اور نہ ہى ان قوانين كو نافذ كرنے والوں كے شبہات ميں آئيں گے، تو اس طرح كے عمل كى اجرت لينى جائز ہے.

ليكن ان وضعى قوانين كو اس نيت اور مقصد كے تحت پڑھنا اور پڑھانا كہ ان قوانين ميں رغبت ہو، اور اس كى ترويج كى جاسكے، اور اسے شريعت اسلاميہ كے برابر لايا جائے، يا اس طرح كا ثابت كيا جائے، تو يہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت و عداوت، اور صريحا كفر، اور سيدھى راہ سے ہٹنا ہے، اور اس پر اجرت لينا حرام اور شر على شر ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں عافيت سے نوازے اور ذلت و خذلان سے ہم اس كى پناہ ميں آتے ہيں.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ماخوز از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 497 )

مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 12874 ) كا جواب ضرور ديكھيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب