الحمد للہ.
اگر كوئي شخص احتلام يا جماع سے جنبي ہو جبكہ جماع اذان فجر سے كيا قبل گيا ہواورصبح ہوجائے تواس پر كچھ لازم نہيں آتا اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
( عائشہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتي ہيں كہ: نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان المبارك ميں بعض اوقات احتلام كےبغير جنبي ہوتے توفجرہوجاتي تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم غسل كركے روزہ ركھ ليتے تھے ) صحيح بخاري ( 1926 ) صحيح مسلم ( 1109 ) .
تواس بنا پر اس دن آپ كا روزہ صحيح ہے ليكن آپ پر واجب تھا كہ غسل كرنے ميں جلدي كرتيں كيونكہ آپ كےليےبروقت نمازيں ادا كرنا بھي ضروري تھيں، وقت سے تاخير كركےنماز ادا كرنا جائز نہيں ہے .
اور دين اسلام ميں نماز بہت زيادہ اھميت كي حامل ہے بلكہ يہ روزے اورحج اور زكاۃ اور باقي سب عبادات سے بھي زيادہ عظيم اور موكد اس ليے مسلمان كوچاہيے كہ وہ اس كا اہمتام كرے اور اس كي قدرومنزلت كي قدر كرتے ہوئے اس كي ادائيگي اوقات مقررہ پر كرے .
اور اسي ليے نماز ميں سستي كرنے والا شخص بہت ہي عظيم خطرہ ميں ہے حتي كہ بعض اھل علم توبغير عذر اس كےوقت ميں صرف ايك نماز ترك كرنے والےكو كافر قرار ديتےہيں .
اور پھر تارك نماز كےليے تو نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے بطور ترھيب فرمايا ہےكہ :
( جس نے عصر كي نماز چھوڑ دي اس كےاعمال تباہ ہوگئے ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 553 )
اس كي شرح كےليے آپ سوال نمبر ( 49698 ) كےجواب كا مطالعہ كريں .
لھذا سوال كرنے والي كوچاہيے كہ وہ سستي كي بنا پر نماز اوقات مقررہ ميں ادا نہ كرنے پر اللہ تعالي سےتوبہ واستغفار كرے، اللہ تعالي توبہ كرنےوالے كي توبہ قبول فرماتا ہے، اور جوكوئي بھي اس كي طرف رجوع كرے اسے معاف كرديتا ہے.
مزيد تفصيل اور فائدہ كےليے آپ سوال نمبر ( 21806 ) كا جواب بھي ديكھيں.
واللہ اعلم .