الحمد للہ.
ہر بوس و كنار جماع شمار نہيں ہوتا، بلكہ جماع يہ ہے كہ مرد كى شرمگاہ ( عضو تناسل كا اگلا حصہ ) عورت كى شرمگاہ ميں داخل ہو جائے، اگر ايسا ہو جائے تو جماع ہو جائيگا، چاہے پورا عضو تناسل داخل نہ بھى ہو، يا عضو كا كچھ حصہ داخل كيا ہو تو اس سے جماع ہو گا، اس كى دليل احاديث ميں موجود ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب مرد عورت كى چاروں شاخوں كے مابين بيٹھے اور پھر اس كى كوشش كرے تو غسل واجب ہو گيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 291 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 525 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں كہتے ہيں:
حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا كہ:
" پھر اس كى كوشش كرے "
يہ عورت كى شرمگاہ ميں عضو داخل كرنے سے كنايہ ہے.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
" جب مرد عورت كى چاروں شاخوں كے درميان بيٹھ گيا اور ختنہ ختنے كے ساتھ مل گيا تو غسل واجب ہو گيا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 349 ).
مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" اور ختنہ ختنے سے چھو جائے تو غسل واجب ہو گيا "
علماء كرام كہتے ہيں: اس كا معنى يہ ہے كہ آپ نے اپنا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں داخل كر ليا، اس سے مراد حقيقى چھونا اور مس كرنا نہيں، وہ اس طرح كہ عورت كا ختنہ شرمگاہ كى اوپر والى طرف ہوتا ہے، اور جماع ميں عضو تناسل اسے مس نہيں كرتا.
اور علماء كرام كا اجماع ہے كہ اگر مرد نے اپنا عضو عورت كے ختنہ پر ركھا اور اندر داخل نہ كيا تو غسل واجب نہيں ہوگا، نہ مرد پر اور نہ ہى عورت پر، چنانچہ يہ اس پر دلالت كرتا ہے جو ہم بيان كر چكے ہيں، اور چھونے سے مراد برابرى ہے، اور اسى طرح ايك روايت ميں يہ درج ذيل الفاظ بيان ہوئے ہيں:
" جب دونوں ختنے مل جائيں "
يعنى دونوں برابر ہو جائيں " انتہى.
اور " المجموع " ميں كہتے ہيں:
" غسل كا وجوب اور جماع كے متعلق سب احكام ميں شرط يہ ہے كہ مرد كا عضو عورت كى شرمگاہ ميں پورا داخل ہو جائے، اور احكام ميں يہ شرط نہيں كہ كہ عضو كے اگلے حصہ ميں كے ساتھ تعلق نہيں " انتہى.
ديكھيں: المجموع ( 2 / 150 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:
" چھونے اور ملنے سے مراد برابر ہونا ہے، اس كى دليل ترمذى كى روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" جب تجاوز كر جائے "
يہاں حقيقى مس اور چھونا مراد نہيں، كيونكہ عضو تناسل كے داخل ہونے كے وقت اس كا تصور بھى نہيں ہو سكتا " انتہى.
اور شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ايك حديث ميں " المحاذاۃ " يعنى برابر كے الفاظ وارد ہيں، اور ايك ميں " الملاقاۃ " اور ايك ميں " الملامسۃ " اور ايك ميں الالصاق " كے الفاظ ہيں، اور ملاقات سے برابر ہونا مراد ہے" انتہى.
اور قاضى ابو بكر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب غضو تناسل كا اگلا حصہ عورت كى شرمگاہ ميں چلا جائے تو ملاقات ہو گئى " انتہى.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" يہ تو معلوم ہى ہے كہ ختنہ عضو تناسل كے اگلے حصہ ميں ہوتا ہے، چنانچہ اگر ايسا ہى ہے تو پھر عورت كے ختنہ والى جگہ سے اس وقت تك نہيں چھو سكتا جب تك عضو تناسل كا اگلا حصہ اندر داخل نہ ہو، اس ليے ہم نے جماع ميں غسل واجب ہونے كے ليے شرط يہ لگائى ہے كہ: عضو تناسل كا اگلا حصہ يعنى سر شرمگاہ ميں غائب ہو جائے.
اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہم كى حديث ميں يہ الفاظ ہيں:
" جب دونوں ختنے مل جائيں، اور عضو تناسل كا سر چھپ جائے تو غسل واجب ہو گيا " انتہى.
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 611 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 323 ).
اس بنا پر ختنہ كا ختنے سے ملنا" اور " دونوں ختنوں كا آپس ميں ملنا " سے مراد مرد كے ختنہ كى جگہ كا عورت كے ختنہ كى جگہ كے برابر ہونا ہے، اور يہ اس وقت ہوگا جب عضو تناسل كا مكمل سر عورت كى شرمگاہ ميں چھپ جائے، اور جب عورت كى شرمگاہ ميں عضو تناسل كا سر غائب ہو جائے تو جماع ہے، اس سے غسل واجب ہو جائيگا، چاہے انزال ہو يا نہ ہو.
واللہ اعلم .