الحمد للہ.
اول:
مسلمان عورت كے ليے اپنے محرم مردوں، اور كفار محرم مردوں كے ساتھ اختلاط ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ اس وقت ہے جب فتنہ كا خدشہ نہ ہو، اور اسى طرح اپنى كافر اور اجنبى عورتوں سے جن كے ساتھ اختلاط كى ضرورت ہو ان كے ساتھ بھى اختلاط ميں كوئى حرج نہيں مثلا: ساس وغيرہ.
مسلمان عورت پر واجب ہوتا ہے كہ وہ انہيں اچھے اور بہتر انداز ميں دعوت دے، اور يہ ان اخلاق حسنہ كا اظہار كركے ہونا چاہيے جس كى طرف شريعت اسلاميہ دعوت ديتى ہے كہ اچھى كلام، اور بہتر افعال سرانجام دے كر، اور اس كے ساتھ ساتھ اسے اسلامى احكام كا التزام بھى كرنا چاہيے مثلا سلام كرنے ميں ابتداء كرے، اور ان كے ساتھ دلى محبت نہ ركھے.
رہا ان كفار محرم مردوں اور عورتوں كے سامنے لباس كا مسئلہ تو مسلمان عورت كے ليے اپنے محرم مردوں اور عورتوں كے سامنے ان اعضاء كو ننگا كرنا جائز ہے جو اہل شرع و ادب كے ہاں عادتا معروف ہيں مثلا: چہرہ اور سر، اور گردن اور بازو، اور پنڈلى كا كچھ حصہ.
اور چاہے عورتيں اور محرم مرد مسلمان ہوں يا كفار ان ميں حكم مختلف ہے.
كسى بھى مسلمان عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان كے سامنے چھوٹا اور شاٹ، اور باريك لباس پہنے، اور نہ ہى وہ ان كے سامنے تنگ لباس پہن سكتى ہے جو اس كے جسم كا حجم واضح كرتا ہو.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" عورت كو عزت و وقار اور حشمت اختيار كرتے ہوئے شرم و حياء اختيار كرنى چاہيے، چاہے اس كى جانب ديكھنے والى عورتيں ہى ہوں، اور وہ ان عورتوں كے سامنے بھى وہى اعضاء ظاہر كرے جو عادتا ظاہر ہوتے ہيں اور جس كى ضرورت ہوتى ہے، مثلا ( وہ لباس جو گھر ميں كام كاج كے وقت پہنا جاتا ہے " پہن كر چہرہ اور ہاتھ اور دونوں قدم وغيرہ ننگے كر كے نكلنا، يہ اس كے ليے زيادہ ستر اور پردہ كا باعث ہے، اور شك والى جگہوں سے زيادہ دور ہے "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 288 - 289 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور ديكھنے ميں عورت كےمحرم اسى طرح ہيں جس طرح عورت كا عورت كى طرف ديكھنا ہے، دوسرے معنوں ميں يہ كہ عورت كے ليے اپنے محرم كے سامنے وہى كچھ ظاہر كرنا جائز ہے جو وہ كسى عورت كے سامنے ظاہر كر سكتى ہے، وہ اپنا سر، گردن، اور پاؤں، اور ہتھيلى، اور بازو، پنڈلى وغيرہ ظاہر كر سكتى ہے، ليكن وہ اپنا لباس مختصر اور چھوٹا نہيں كر سكتى "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن عثيمين ( 12 / 276 - 277 ).
آپ سوال نمبر ( 12371 ) اور ( 6569 ) كے جوابات كا بھى مطالعہ كريں، ان ميں عورتوں كا اپنے محرم مردوں اور عورتوں كے سامنے كيا كچھ ظاہر كرنا صحيح ہے، اس كے متعلق اہل علم كى زيادہ وضاحت بيان ہوئى ہے اور دلائل بيان ہوئے ہيں.
دوم:
كچھ علماء كرام مسلمان اور كافرہ عورت كے مابين فرق كرتے ہيں، اس ليے انہوں نے كافرہ عورت كے سامنے پردہ اتارنا منع كيا ہے، ليكن يہ قول مرجوح ہے، اور راجح قول وہى ہے جواوپر بيان ہوا ہے، كيونكہ يہودى عورتيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا وغيرہ دوسرى صحابيات كے پاس آيا كرتى تھيں، اور ان ميں سے كسى كے متعلق بھى يہ منقول نہيں كہ انہوں نے ان عورتوں سے پردہ كيا ہو.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا كافرہ عورت سے پردہ كرنا واجب ہے، يا كہ اس كے ساتھ بھى مسلمان عورت جيسا معاملہ ہى كيا جائے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اس ميں اہل علم كے دو قول ہيں:
اور راجح يہى ہے كہ واجب نہيں؛ كيونكہ ازواج مطہرات سے يہ منقول نہيں ہے، اور نہ ہى ان كے علاوہ دوسرى صحابيات سے جبكہ وہ مدينہ ميں يہودى اور دوسرى بت پرست عورتوں كے ساتھ اكٹھى ہوتى تھيں، اور اگر ايسا ہوتا تو يہ بھى منقول ہوتا، جس طرح كہ اس سے بھى چھوٹى چھوٹى چيز منقول ہوئى ہے.
اور ان كا كہنا ہے:
مسلمان يا كافرہ عورت كے سامنے مسلمان عورت كا چہرہ ننگا كرنے ميں كوئى مانع نہيں؛ كيونكہ انہيں تو صرف غير محرم مردوں سے اپنا چہرہ چھپانے كا حكم ديا گيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ عورتيں اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر لٹكا كر ركھيں، اور وہ اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے خسر كے، يا اپنے لڑكوں كے، يا اپنے خاوند كے لڑكوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل كى عورتوں كے.... النور ( 31 ).
تو اللہ سبحانہ و تعالى نے چہروں پر چادريں لٹكانے كا حكم ديا ہے كہ وہ آيت ميں مذكورمحرم مردوں كے علاوہ باقى سب مردوں سے اپنا چہرہ چھپا كر ركھيں، يا پھر جن مردوں اور ان عورتوں كے درميان رضاعت ہے جس سے عورت مرد پر حرام ہو جاتى ہے، جيسا كہ دوسرى آيت ميں ا سكا بيان ہوا ہے.
اور اس آيت ميں عورتوں سے مراد سب مسلمان اور غير مسلم عورتيں ہيں.
واللہ تعالى اعلم "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 287 - 288 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:
كيا مسلمان عورت غير مسلم عورت كے سامنے اپنے بال ننگے كر سكتى ہے، اور خاص كر وہ كافرہ عورت مسلمان عورت كا اپنے رشتہ دار غير مسلم مردوں كے سامنے وصف بيان كرتى ہو ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ معاملہ علماء كرام كے درج ذيل آيت كى تفسير ميں اختلاف پر مبنى ہے:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور آپ مومن عورتوں سے كہہ ديں كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھا كريں، اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى ظاہرى زينت كے علاوہ كچھ بھى ظاہر نہ كريں، اور وہ عورتيں اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر لٹكا كر ركھيں اور وہ اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے خسر كے، يا اپنے لڑكوں كے، يا اپنے خاوند كے لڑكوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل كى عورتوں كے.... النور ( 31 ).
اور اس آيت ميں " نسائھن " كى تفسير ميں علماء كرام كا اختلاف ہے كچھ علماء كرام كہتے ہيں كہ اس سے جنس مراد ہے، يعنى عمومى طور پر جنس عورت مراد ہے.
اور كچھ علماء كا كہنا ہے كہ: اس ضمير سے مقصود وصف ہے؛ يعنى صرف مومن عورتيں مراد ہيں.
تو پہلے قول كى بنا پر مسلمان عورت كے ليے غير مسلم عورت كے سامنے اپنے بال ننگے كرنے جائز ہيں.
اور دوسرے قول كے مطابق جائز نہيں.
اور ہم پہلے قول كى طرف مائل ہيں، اور اقرب الى ا لصواب بھى يہى ہے؛ كيونكہ عورت كا عورت كے ساتھ كوئى فرق نہيں كہ مسلمان ہو يا غير مسلم، يہ تو اس صورت ميں ہے جب فتنہ كا ڈر نہ ہو.
ليكن اگر فتنہ كا خدشہ ہو كہ عورت اپنے رشتہ دار مردوں كے سامنے جا كر اس عورت كے اوصاف اور اس كے جسم كا حجم وغيرہ بيان كرتى ہو تو پھر اس وقت اس فتنہ سے بچنا ضرورى ہے، چنانچہ عورت اپنے جسم كى كوئى چيز بھى ظاہر نہ كرے، مثلا: ٹانگيں، يا بال دوسرى عورت كے سامنے چاہے وہ مسلمان ہو يا كافر.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ جمع و ترتيب صلاح الدين محمود صفحہ نمبر ( 605 ).
واللہ اعلم .