اتوار 16 جمادی اولی 1446 - 17 نومبر 2024
اردو

اگر نجاست کی بد بو باقی رہ جائے تو کوئی مسئلہ ہو گا؟

438695

تاریخ اشاعت : 03-11-2024

مشاہدات : 662

سوال

ایسے پائپ کو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے جس میں چوہے مرے ہوئے تھے، اس پائپ کو صاف کر لیا گیا لیکن بدبو اب بھی باقی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر چوہے کسی پائپ میں مر جائیں اور ان کے مردہ جسموں سے کچھ نکل کر پائپ کو لگ جائے، یا چوہوں کے جسم کا کوئی حصہ تحلیل ہو جائے تو یہ پائپ نجس ہو جائے گا۔

پھر اگر پائپ کو پاک پانی سے دھویا جائے، یا پانی کے علاوہ کسی بھی مائع سے -اس بنیاد پر دھویا جائے کہ پانی کے علاوہ مائع بھی نجاست زائل کرنے کے لیے کافی ہو گا-اس طرح دھویا جائے کہ نجاست کے اثرات یعنی رنگ ، بو اور ذائقہ باقی نہ رہیں تو یہ پائپ پا ک ہو جائے گا۔

اور اگر پائپ کو اچھی طرح دھونے اور نجاست کو زائل کرنے کے بعد بھی بد بو ختم نہ ہو تو اس پر پاک ہونے کا حکم لگے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا پانی کے علاوہ دیگر جراثیم کش محلول وغیرہ استعمال کرنا واجب ہے؟

اس بارے میں اختلاف ہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ “المجموع” (2/ 594) میں کہتے ہیں:
“اگر صرف بد بو باقی رہ جائے اور اسے ختم کرنا بھی مشکل ہو جیسے کہ شراب کی بو، برسام کی بیماری میں مبتلا شخص کا پیشاب، اور مخصوص جانوروں کا فضلہ وغیرہ تو اس حوالے سے دو موقف ہیں، صحیح ترین موقف کے مطابق وہ پاک ہو گا۔۔۔
اور اگر بد بو کے ساتھ رنگت بھی باقی ہو تو صحیح موقف کے مطابق پاک نہیں ہو گا، رافعی رحمہ اللہ نے اس میں توجیہ بھی پیش کی ہے۔
جبکہ تتمہ کے مؤلف کہتے ہیں: اگر نجاست کو صرف پانی سے زائل کرنا ممکن نہ ہو اشنان [صفائی ستھرائی کے لیے استعمال کی جانے والی جڑی بوٹی] وغیرہ کے ذریعے نجاست زائل ہو سکتی ہو تو اشنان استعمال کرنا واجب ہے۔

مذکورہ جن صورتوں میں ہم نے رنگت اور بو کے باقی رہنے پر بھی طہارت کا حکم لگایا ہے: تو وہ حقیقی طور پر طاہر ہی ہے، اور یہی وہ صحیح موقف ہے جو جمہور کے ہاں قطعی ہے۔
اور تتمہ میں یہ توجیہ ذکر کی گئی ہے کہ: یہ معمولی نجاست قابل در گزر ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے۔” ختم شد

علامہ حطاب رحمہ اللہ “مواهب الجليل” (1/ 163) میں خلیل رحمہ اللہ کی عربی عبارت: { مع زوال طعمه، لا لونٍ وريحٍ عسُرا } کی شرح میں کہتے ہیں:
“اگر نجاست کا ذائقہ باقی رہا تو وہ پاک نہیں ہو گی؛ کیونکہ ذائقے کا باقی رہ جانا نجاست کے باقی رہ جانے کی دلیل ہے، اس لیے ذائقے کا زائل کرنا بھی ضروری ہے چاہے اس کے لیے کچھ مشقت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
خلیل رحمہ اللہ کے قول { لا لونٍ وريحٍ } دونوں کا عطف زوال پر ہے، اور اس صورت میں مضاف مقدر ہو گا تو اصل عبارت یوں ہو گی: { لا زوال لا لونٍ وريحٍ عسر زوالهما} تو مطلب یہ ہو گا کہ: نجاست لگی ہوئی جگہ اس طرح پاک ہو جائے گی بشرطیکہ نجاست کا ذائقہ زائل ہو جائے، اس نجاست لگی جگہ کے پاک ہونے کے لیے رنگت یا بو کا زائل ہونا لازمی نہیں ہے اگر ان دونوں کو زائل کرنا مشکل ہو۔ چنانچہ اگر ان دونوں کو زائل کرنے میں کسی مشقت کا سامنا نہ ہو تو پھر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی باقی ہوئی تو وہ جگہ پاک نہیں ہو گی۔

رنگت کا باقی رہنا بد بو کے باقی رہنے سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔

“الجواہر” میں ہے کہ اگر دِکھنے میں عینِ نجاست زائل ہونے کے بعد بھی ذائقہ باقی رہے تو جگہ نجس ہی رہے گی؛ کیونکہ ذائقے کا وجود عینِ نجاست کے باقی رہنے کی دلیل ہے۔

اسی طرح اگر رنگت اور بو باقی ہو اور انہیں پانی کے ذریعے زائل کرنا ممکن بھی ہو تب بھی وہ نجس ہے۔

لیکن اگر رنگت اور بو کو پانی سے زائل کرنا ممکن نہ ہو تو پھر یہ قابل در گزر ہے، اور جگہ پاک ہو گی۔

مزید ” الذخيرة ” میں اسے نقل کرتے ہوئے کہا: یہ قابل در گزر بالکل اسی طرح ہے جیسے استنجا کرتے ہوئے اگر ہاتھ یا نجاست والی جگہ سے بد بو کو زائل کرنا مشکل ہو تو وہ بھی قابل در گزر ہوتا ہے۔

نوٹ:۔۔۔
دوسرا نوٹ: نجاست کو زائل کرنے کا معتبر ذریعہ : پانی کے ساتھ زائل کرنا ہے، جیسے کہ یہ بات “الجواہر” کی بات : ” انہیں پانی کے ذریعے زائل کرنا ممکن بھی ہو “سے سمجھی جا سکتی ہے؛ لہذا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر رنگت یا بو کو پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے زائل کرنا ممکن ہو تو اسے کسی اور چیز سے زائل کرنا واجب نہیں ہے۔ یہی بات صحیح ہے، اسی طرح کا موقف ابن العربی اور ابن الحاجب کی گفتگو میں بھی ملتا ہے۔

اور اگر رنگت اور بو کو اشنان سے زائل کرنا ممکن ہو ، یا صابن وغیرہ سے تو ظاہر یہی ہے کہ انہیں استعمال کرتے ہوئے رنگت اور بو کو زائل کرنا واجب نہیں ہے۔
شافعی فقہائے کرام کا اس حوالے سے کچھ اختلاف ہے۔

حالانکہ خولہ بنت یسار رضی اللہ عنہا کی حدیث جو کہ ایسے خون کے بارے میں ہے جسے زائل کرنا مشکل ہو رہا ہے ، اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہیں پانی ہی کافی ہے، اور اس کے اثرات آپ کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔) اس حدیث کو مسند احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
تو یہاں بو کو رنگت پر قیاس کیا گیا ہے اور علت مشترکہ مشقت ہے۔” ختم شد

دائمی فتاوی کمیٹی کے فتاوی: (6/210) میں ہے کہ:
“جو نجاست آپ کے کپڑے یا بدن پر لگی ہوئی تھی اسے آپ نے دھو لیا اور نجاست زائل ہو گئی، تو پھر آپ نے ان میں نماز پڑھی تو آپ کی نماز صحیح ہے، آپ کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں کی نماز بھی صحیح ہے، اگر عینِ نجاست زائل ہو چکا ہو لیکن کچھ بو ابھی باقی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
الشیخ عبد اللہ غدیان، الشیخ عبد الرزاق عفیفی،     الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز۔” ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب