اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

فرضى حج نہيں كيا اور حج كرنے كى نذر مان لى

44679

تاریخ اشاعت : 17-10-2010

مشاہدات : 5769

سوال

ايك عورت نے نذر مانى كہ اگر اللہ تعالى نے اسے بيٹا ديا تو وہ حج كرے گى، تو اللہ تعالى نے اسے بيٹے سے نواز ديا تو كيا اس پر نذر كى بنا پر حج ہے؟ يہ علم ميں رہے كہ اس نے فرضى حج ادا نہيں كيا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ جاننا ضرورى ہے كہ نذر ماننے سے منع كيا گيا ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر ماننے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

" يہ كوئى بھلائى اورخير نہيں لاتى"

اور اسى ليے بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ نذر ماننا حرام ہے، لھذا آپ نذر كيوں مانتے ہيں؟ اور اپنے آپ كو تكليف ميں كيوں ڈالتے ہيں؟

كيا اللہ تعالى آپ كو يا آپ كے رشتہ دار كو بغير كسى شرط كے شفايابى نصيب نہيں كرے گا ؟

سبحان اللہ! نذر نہ مانيں بلكہ آپ اللہ تعالى سے شفاء اور عافيت طلب كريں، جب اللہ تعالى شفا دينا چاہے تو شفا يابى نصيب كر دے گا چاہے آپ نذر مانيں يا نہ مانيں، اور جب آپ ايسا كر ليں اورنذر مان ہى ليں تو اگر يہ نذر اللہ تعالى كى اطاعت ميں ہو تو اسے پورا كرنا واجب ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى نذر مانى تو اسے اللہ تعالى كى اطاعت كرنى چاہيے "

اس بنا پر ہم مذكورہ عورت كو يہ كہيں گے كہ: آپ پر حج كرنا واجب ہے ليكن وہ پہلے فرضى حج كرے اور پھر نذر كا واجبى حج، اگر وہ ايسا نہيں كرتى تو اس نے اپنے آپ كو عظيم سزا كا مستحق ٹھرايا، جسے اللہ تعالى نے مندرجہ ذيل فرمان ميں بيان كيا ہے:

اور ان ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو اللہ تعالى سے عہد كرتے ہيں كہ اگر اللہ تعالى نے ہميں اپنے فضل سے ( مال ) ديا تو ہم اسے صدقہ كرينگے، اور نيك و صالح لوگوں ميں سے ہونگے، اور جب اللہ تعالى انہيں اپنے فضل ميں سے عطا كرتا ہے تو وہ بخل كرنے لگتے ہيں اور اعراض كرتے ہوئے مڑ جاتے ہيں التوبۃ ( 75 - 76 ).

انہوں نے اللہ تعالى سے وعدہ كيا كہ اگر اللہ تعالى انہيں مالدار اور غنى كردے گا تو وہ صدقہ و خيرات كرينگے، اور صالح اور نيك لوگوں ميں سے بن جائيں گے، اللہ تعالى نے انہيں وہ مال دے ديا ليكن وہ مال ميں بخل كرنے لگے اور اصلاح سے اعراض كرنے لگے:

تو اللہ تعالى نے اس كى سزا ميں ان كے دلوں ميں نفاق ڈال ديا .

كب تك ؟

اس دن تك جس دن وہ اللہ تعالى سے مليں گے.

يعنى موت تك:

اس وجہ سے كہ انہوں نے اللہ تعالى سے كيے ہوئے وعدہ كى وعدہ خلافى كى اور اس بنا پر كہ جو وہ كذب بيانى كرتے تھے التوبۃ ( 77 ).

خلاصہ:

نذر ماننے سے بچيں اور نذر نہ مانيں تو آپ عافيت ميں رينگے، اور اپنے آپ پر وہ اشياء اور چيزيں لازم نہ كريں جواللہ تعالى نے تم پر لازم نہيں كيں، بلكہ تمہارے افعال كى بنا پر وہ لازم كي ہيں، كيونكہ كچھ طالب علم ايسے ہيں جب كوئى سبق مشكل ہوتا ہے اور وہ فيل ہونے سے ڈرتے ہيں تو نذر مانتے ہوئے يہ كہتے ہيں:

ميں اللہ تعالى كے ليے نذر مانتا ہوں كہ اگر ميں پاس ہو گيا تو ايسے ايسے كرونگا، اطاعت كے كام، اور پھر جب وہ پاس ہو جاتا ہے تو آكر سوال پوچھنا شروع كرديتا ہے، كبھى كسى عالم سے اور كبھى كسى عالم دين سے، كہ ميرى خلاصى كراؤ، ليكن نذر پورى كيے بغير كوئى چھٹكارا نہيں، بلكہ نذر ضرور پورى كرنا ہو گى" انتہى .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين رحمہ اللہ ( 21 / 54 )