الحمد للہ.
گالى دينا نواقض وضوء ميں شامل نہيں، وضوء توڑنے والى اشياء محصور اور محدود ہيں جن كا بيان سوال نمبر ( 14321 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے.
ليكن جو شخص بھى كوئى معصيت كا مرتكب ہو وہ وضوء كرے كيونكہ وضوء كرنے سے گناہ معاف ہوتے ہيں جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے.
شيرازى اور ابن حزم رحمہما اللہ نے صحابہ كرام سے آثار نقل كيے ہيں كہ قبيح اور فحش كلام كرنے كے بعد وضوء كرنا چاہيے.
ان آثار ميں عائشہ، ابن مسعود رضى اللہ عنہم كے آثار شامل ہيں جن ميں وضوء كرنے كا حكم ہے.
ديكھيں: المھذب ( 2 / 73 ) المحلى ابن حزم ( 1 / 241 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
صحيح يا درست يہى ہے كہ قبيح كلام مثلا غيبت اور چغلى كرنے اور جھوٹ بولنے اور بہتان ترازى كرنے، اورفحش كلامى وغيرہ كرنے كے بعد وضوء كرنا مستحب ہے، اور اس وضوء كا مقصد گناہوں كا كفارہ ہے جيسا كہ صحيح احاديث سے ثابت ہے، اس سے كچھ واجب نہيں ہوتا.
ابن منذر رحمہ اللہ اپنى كتاب " الاشراف " اور " الاجماع " ميں كہتے ہيں:
علماء كرام كا اس پر اجماع ہے كہ قبيح كلام مثلا چغلى اور غيبت اور بہتنا ترازى اور جھوٹ وغيرہ بولنے سے وضوء واجب نہيں ہوتا...
امام شافعى اور پھر ابن منذر اور بيھقى اور ہمارے اصحاب نے ابو ہريرہ رضى اللہ عنہ كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے لات اور عزى كى قسم كھائى تو وہ لا الہ الا اللہ كہے، اور جو شخص كسى دوسرے كو كہے كہ آؤ جوا كھيليں تو وہ صدقہ كرے "
صحيح بخارى اور صحيح مسلم. انتہى بتصرف
ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 72 ).
يعنى اسے وضوء كرنے كا حكم نہيں ديا.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" گناہ كے ارتكاب كے بعد وضوء كرنا مستحب ہے " انتہى.
ديكھيں: الاختيارات ( 15 ).
واللہ اعلم .