منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

كيا بيٹا اپنے باپ كي حرام كمائي كا مال لے لے

45018

تاریخ اشاعت : 22-10-2019

مشاہدات : 8494

سوال

گزارش ہے كہ اس مسئلہ ميں فتوي ديں
ميري عمر بائيس برس ہے اور ميں كامرس كالج ميں پڑھتا ہوں اور ميرے والد صاحب سياحت كا كاروبار كرتے ہيں ، ايك سياحتي شہر كے خاص علاقہ ميں وہ اليكٹرك انجينئر ہيں اور بستي ميں الكٹرك ادارے كے چيرمين كي پوسٹ پركام كرتے ہيں ، جس كا معني يہ ہوا كہ وہ بجلي كے متعلقہ ہرچيز كے مسؤل ہيں ايك بلب سے ليكر واٹرپمپ تك اس ميں شراب كي فريج اور موسيقي ورقص كے ہال اور ٹيلي ويزن وغيرہ بھي شامل ہيں ، اور انہيں اس كام كي بہت زيادہ تنخواہ جوتقريبا چار ہزار جني ملتي ہے .
ليكن ميں پڑھائي كےساتھ ساتھ ايك ہوٹل ميں ملازمت كرتا ہوں - ضرورت كي بنا پر نہيں بلكہ صرف كام سے محبت ولگن كي بنا پر - اور جب ميں نے پاؤں پر كھڑا ہونا اور عليحدہ چھوٹا سا كاروبار كرنا چاہا تو ميرے پاس اس كے علاوہ كوئي حل نہ تھا كہ والد صاحب سے ضرورت كے مطابق رقم لوں ، ليكن والد صاحب كے مال ميں حلال يا حرام كےشك كي بنا پر ميں نے اپنے شكوك كا اظہار اہل سنت علماء ميں سے ايك عالم دين كے سامنے كيا توان كا فتوي تھا كہ اس كا مال ملا جلا ہے اور ميرے ليے ضرورت مثلا كھانے پينے اور لباس اور پڑھائي كےخرچہ كے سوا كوئي اور مال لينا جائز نہيں .
ليكن كاروبار كے ليے مجھے جوراس المال كي ضرورت ہے وہ اپنے والد صاحب سے بطور قرض لينا جائز ہے ، ميرے والد صاحب والد ہونے كےناطے پہلے اور اب بھي ميرا تعاون كرنا چاہتے ہيں ، ميرے ساتھ وہ دوكان پر بھي بيٹھتے ہيں اور بعض اوقات ميں دوكان كي اور اپني ضروريات پوري كرنے كے ليے انہيں دوكان پر چھوڑ كرچلا جاتا ہوں ، تواس طرح والد صاحب ميرا كام سيكھنا شروع ہوئے اور اكيلے بھي كام كرنے لگے تويہاں پہلي مشكل شروع ہوئي وہ يہ كہ :
ميں نے جورقم بھي والد صاحب سے لي تھي اس كا مكمل باريك بيني سے حساب ركھا تھا ، ليكن جب سے والد صاحب ميرے ساتھ كام كرنے لگے ہيں اس وقت سے معاملہ خلط ملط ہوچكا ہے كيونكہ بعض اوقات والد صاحب اپني جيب سے كچھ رقم نكال كر دوكان كي دراز ميں ركھ ديتے ہيں يا پھر اپني جيب سے دوكان كےليے مال خريد ليتے ہيں كوشش وبسيار كے بعد ان اشياء كا توحساب كيا جاسكتا ہے .
ليكن جس چيز كاحساب وكتاب نہيں ہوسكتا وہ يہ كہ انہوں نے بعض اوقات گھر كےليے سامان خريدا ہوتا ہے اور جب ديكھتے ہيں كہ دوكان ميں بھي ان اشياء كي ضرورت ہے تووہ گھر كے ليے خريدا ہواسامان دوكان ميں ركھ ديتے ہيں جس كا مجھے نہ تو علم ہي ہوتا ہے اور نہ ہي مجھ سے مشورہ كرتے ہيں اور نہ ہي اس كا حساب ركھتے ہيں تاكہ ميں واپس لوٹا سكوں .
اور دوسري مشكل يہ ہے كہ: ميرے والد صاحب اس پر راضي نہيں كہ ميں ان سےلي ہوئي رقم واپس كروں كيونكہ وہ اسے ميرا اور ميرے بھائيوں كا مل تصور كرتے ہيں ، اور وہ كام كركے يہ مال ہمارےليے ہي كماتے ہيں اور كبھي بھي يہ رقم واپس كرنا پسند نہيں كرتے . اور تيسري مشكل يہ ہے كہ: وہ اپنے مال كےحرام ہونے كي بھي قائل نہيں – اگروہ مال حرام ہو تو - انكا خيال ہے كہ يہ اس قاعدہ كے تحت آتا ہے ( صروريات ممنوعات كي مباح كرديتي ہيں ) كيونكہ ان كي ملازمت 400جني سے كچھ كم كي متقاضي ہے - اللہ آپ كي عزت وتكريم ميں اضافہ كرے ديكھيں كتنا فرق ہے - ہمارا گھرانہ پانچ افراد پر مشتمل ہے جن ميں سے دو يونيورسٹي كے طالب علم ہيں ، والد صاحب كا خيال ہے كہ حكومت كا سارا مال ہي حرام ہے كيونكہ حكومت سودي قرضوں كے معاملات كرتي اور ٹيكس وصول كرتي اور شراب كي تجارت كوجائز قرار ديتي ہے تواس طرح ہر ملازمت كرنے والے شخص كے مال ميں كچھ نہ كچھ حرام ضرور ہے تواب سوال يہ پيدا ہوتا ہے
1- ميرے والد كےمال كاحكم كيا ہے ؟ اور كيا اس پر يہ قاعدہ ضروريات ممنوعات كومباح كرديتي ہيں فٹ ہوتا ہے ؟ اور اگرايسا ہي ہے توكيا ہمارے ليے تابع ہونے كي بنا پر يہ مال جائزہے ؟
2- جومال ميرے والد نے دوكان ميں داخل كيا ہے اور والد صاحب اس كا حساب كرنے سے قاصر ہيں تو ميں اس كا حساب وكتاب كيسے كروں؟
3- اگر وہ مال لينے سے انكار كرديں تو ميں انہيں يہ مال كيسےواپس – اگر واپس كرنا واجب ہے تو - كروں ؟ اوركيا ميرے ليے انكار پر اصرار كرنا جائزہے اور ميں اپنے قرضے واپس كروں ؟
4 - والد صاحب كے مال ميں سے ميرے ليے كيا جائزہے ؟ اوروالد كےفوت ہونے كي صورت ميں كيا ميں اس كے مال كا وارث بن سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بلا شبہ موجودہ وقت اور خاص كرآپ كے ملك ميں سياحت كے شعبہ ميں كام كرنا بہت سي شرعي مخالفات كولازم كرتا ہے جس ميں مرد وعورت كے اختلاط اور بے پردگي كي ديكھ بھال اور بعض اوقات تو شراب اور دوسري حرام اشياء بھي اس ميں شامل ہوتي ہيں ، اگرتومعاملہ ايسا ہے توپھر آپ كےوالد كا مال حرام ہے اور علماء كرام اسے مال مختلط كانام ديتے ہيں .

اور علماء كرام كا فيصلہ ہے كہ جس كے مال ميں حلال وحرام ملا جلا ہو اس كے مال سے كھانا جائز ہے اور ہرطرح كےمعاملات كرنےجائز ہيں ، لكين اس سے بچنا اولي اورافضل ہے .

اور آپ كےوالد كا ضروريات ممنوعات كومباح كرديتي ہيں والے قاعدہ سے دليل لينا صحيح نہيں ، كيونكہ حلال كمانے كے بہت ذرائع اور وسائل ہيں اور فرمان باري تعالي ہے:

اور جوكوئي اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرے اللہ تعالي اس كےليے نكلنے كا راستہ بنا ديتا ہے اور اسے روزي وہاں سے عطا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھي نہيں ہوتا

اور اگرانسان اپنے ليے يہ دروازہ كھول لے توضرورت كودليل بنا كر حرام كے ہردروازے ميں داخل ہوجائے گا .

آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ حرام خوري كا انجام بہت برا ہوتا ہے اور اگر كچھ بھي نہ ہو پھر بھي حرام كھانے والےشخص كي دعا كبھي قبول نہيں ہوتي جيسا كہ صحيح مسلم ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي حديث ہے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

بلاشبہ اللہ تعالي پاك ہے اور پاكيزہ چيز ہي قبول فرماتا ہے ... ايك ايسے شخص كا ذكر كيا گيا جس نے بہت طويل اور لمبا سفر طے كيا اس كے بال بكھرے ہوئے اور پراگندہ حالت ميں وہ آسمان كي جانب ہاتھ بلند كيے يارب يارب كہے اور اس كا كھانا حرام كا اس كا پينا حرام كا اور اس كا لباس بھي حرام كا اوراس كي غذا ہي حرام خوري ہے تواس كي دعا كہاں قبول ہو . صحيح مسلم ( 1015 )

اور آپ كے والد كا اس حرام ملازمت سے مال كمانے كوعلماء كرام حرام كمائي ( مالامحرمالكسبہ ) كا نام ديتےہيں يعني اس نے حرام طريقے سے مال كمايا ہے ، اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ يہ مال صرف كمائي كرنے والے پر حرام ہے .

ليكن جوشخص يہ مال كسي مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كرے اس پر حرام نہيں مثلا اگر آپ كے والدآپ كو ہديہ ديں يا پھر خرچہ وغيرہ ديں تو آپ كےليے يہ حرام نہيں .

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتے ہيں :

بعض علمائے كرام كا كہنا ہے كہ: حرام كمائي كا گناہ صرف كمائي كرنے والے پرہے نہ كہ كمائي كرنےوالے شخص سے حاصل كرنےوالے پرجس نے مباح اور جائزطريقہ سے حرام كمائي والے شخص سے حاصل كيا، بخلاف اس چيزكے جوبعينہ حرام ہو مثلا شراب اور غصب كردہ چيز وغيرہ .

يہ قول قوي اور وجيہ ہے اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كےليے ايك يہودي سے غلہ خريدا تھا ، اور خيبرميں ايك يہودي عورت كي جانب سے ہديہ كردہ بكري كا گوشت كھايا ، اور يہودي كي دعوت قبول كي .

يہ معلوم ہونا چاہيے كي اكثر يہودي سود ليتے اورحرام خور ہيں ، اور اس قول كي تقويت رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل قول سے بھي ہوتي ہے :

رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے بريرہ رضي اللہ تعالي عنہا پر صدقہ كيےگئےگوشت كےبارہ ميں فرمايا : ( وہ اس كےليےتوصدقہ اوراس كي جانب سے ہمارے ليے ہديہ ہے ) ديكھيں القول المفيد علي كتاب التوحيد ( 3 / 112 )

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھي كہنا ہے :

جوخبيث اور حرام طريقہ سے كمايا گيا ہو مثلا دھوكہ اور فراڈ سے حاصل كردہ ، يا پھر سود كے ذريعہ يا جھوٹ وغيرہ كے ذريعہ حاصل كردہ مال يہ كمانے والے پر حرام ہے اس كے علاوہ كسي اور پر حرام نہيں اگراس نے مباح اور جائز طريقہ كےساتھ حرام كمائي والے سے حاصل كيا ہو . اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم يہوديوں سے لين دين كرتے تھے حالانكہ وہ حرام خور اور سود ليتے ہيں ، تويہ اس بات كي دليل ہے كہ كمائي كرنے والے كےعلاوہ كسي اورپر يہ حرام نہيں . تفسير سورۃ البقرۃ ( 1 / 198 )

تواس بنا پر آپ اپنے والد كي وارثت حاصل كرسكتے ہيں ، اور يہ آپ كے ذمہ نہيں كہ انہوں نے جوكچھ ديا ہے اس كا حساب وكتاب كرتے پھريں يا پھر جوديا ہے وہ واپس كريں ، ليكن اگر آپ اس كے مال سے نہ كھانے كي استطاعت ركھتے ہيں تويہ اولي اور بہتر اور اسي ميں ورع وتقوي ہے .

واللہ تعالي اعلم , مزيد تفصيل كے ليے آپ مندرجہ ذيل كتب ديكھيں احكام القرآن لابن العربي ( 1 / 324 ) المجموع ( 9 / 430 ) الفتاوي الفقھيۃ الكبري للھيتمي ( 2 / 233 ) كشاف القناع ( 3 / 496 ) سوال نمبر (21701)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب