اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دوران عدت بيوہ كا حج كے ليے جانا

45519

تاریخ اشاعت : 09-09-2013

مشاہدات : 8267

سوال

ايك عورت كاخاوند فوت ہو چكا ہے اور وہ ابھى عدت ميں ہى ہے، اب وہ حج كرنا چاہتى ہے كيا اس كے ليے حج پر جانا جائز ہے يا نہيں، حالانكہ وہ فرضى حج ادا كر چكى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيوہ عورت كے ليے چارہ ماہ دس دن عدت گزارنا واجب ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جو لوگ تم ميں سے فوت ہو جائيں اور بيوياں چھوڑ جائيں تو وہ بيوياں چار ماہ دس دن اپنے آپ كو انتظار ميں ركھيں البقرۃ ( 234 ).

اس عرصہ ميں عورت كے ليے اپنے خاوند كا سوگ اور عدت منانا لازم ہے.

ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جو عورت بھى اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتى ہے اس كے ليے كسى بھى ميت پر تين روز سے زيادہ سوگ منانا حلال نہيں؛ مگر خاوند پر كہ وہ چار ماہ دس دن ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1280 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1486 ).

سوال نمبر ( 13966 ) كے جواب ميں بيوہ كے ليے دوران عدت جن اشياء سے اجتناب كرنا واجب ہے بيان ہوئى ہيں، ان اشياء ميں بيوہ عورت كا عدت كے دوران گھر سے باہر نكلنا بھى شامل ہے.

بيوہ عورت عدت كے عرصہ ميں صرف كسى خاص ضرورت كے تحت گھر سے دن كے وقت اور رات كے وقت حاجت كى خاطر باہر نكل سكتى ہے.

بيوہ عورت كا حج كے ليے گھر سے نكلنا ضرورت نہيں كہلاتا، خاص كر جب يہ عورت جس كے متعلق دريافت كيا گيا ہے اس نے فرضى حج بھى كر ليا ہے.

بلكہ علماء كرام نے تو يہ بيان كيا ہے كہ بيوہ عورت كا دوران عدت فرضى حج كے ليے بھى نكلنا جائز نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بيوہ عورت كے ليے عدت كے دوران حج وغيرہ كے ليے گھر سے نكلنا جائز نہيں، عمر اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى مروى ہے، اور سعيد بن مسيب اور قاسم، امام مالك امام شافعى ابو عبيد اور اصحاب الرائے اور امام ثورى كا بھى يہى قول ہے.

اور اگر كوئى عورت گھر سے سفر پر نكل كھڑى ہو اور راستے ميں اس كا خاوند فوت ہو جائے اگر تو وہ قريب ہى ہو تو گھر واپس آ جائيگى؛ كيونكہ وہ ابھى مقيم كے حكم ميں ہے، اور اگر دور نكل چكى ہو تو وہ اپنا سفر جارى ركھےگى، اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ اگر اس نے احرام نہ باندھا ہو تو اسے گھر واپس بھيج ديا جائيگا.

اگر قريب ہو تو اس كے گھر واپس آنے كے وجوب پر درج ذيل دليل دلالت كرتى ہے:

سعيد بن منصور سعيد بن مسيب سے بيان كرتے ہيں كہ ان كى كچھ عورتيں حج يا عمرہ پر گئيں اور ان كے خاوند فوت ہو گئے تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں ميقات ذوالحليفۃ سے واپس كر ديا تا كہ وہ اپنے گھروں ميں جا كر عدت گزار سكيں...

اور اگر عورت پر فرضى حج ہو اور اس كا خاوند فوت ہو جائے تو وہ اپنے گھر ميں ہى عدت پورى كريگى چاہے اس كا حج رہ بھى جائے؛ كيونكہ حج پر جانے سے گھر ميں عدت پورى كرنا رہ جائيگى، اور اس كا بدل كوئى نہيں؛ ليكن حج اس برس كى بجائے اگلے برس كيا جا سكتا ہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: المغنى ( 11 / 303 ـ 305 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" جمہور فقھاء كرام جن ميں احناف شافعيہ اور حنابلہ شامل ہيں كہتے ہيں كہ بيوہ عورت كا عدت كے دوران حج كے ليے جانا جائز نہيں؛ كيونكہ حج فوت نہيں ہوتا، بلكہ گھر ميں گزارنا رہ جاتى ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 352 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك عورت كا خاوند فوت ہو گيا اور اس نے فرضى حج كرنا تھا، ليكن ابھى اس كى عدت پورى نہيں ہوئى، وہ حج كى ا ستطاعت بھى ركھتى ہے اور اس كے ساتھ جانے كے ليے محرم بھى ہے كيا وہ حج كرے يا نہ كرے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" وہ حج نہيں كريگى بلكہ عدت كے ليے اپنے گھر ميں ہى رہےگى، اس حالت ميں اس پر حج فرض نہيں ہوتا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے، جو بھى اس تك جانے كى استطاعت ركھے آل عمران ( 97 ).

شرعى طور پر اس عورت ميں حج كى استطاعت نہيں ہے چاہے اس كے ساتھ محرم بھى ہے، بلكہ اسے اپنا حج آئندہ برس يا اس كے بعد تك مؤخر كرنا چاہيے، يعنى وہ بعد ميں حسب استطاعت حج كر لے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 68 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب